آج محمد نواز شریف ایک با رپھر ہمارے درمیان ہیں’’تھا جس کا انتظار وہ شہکارآ گیا‘‘۔ انہیں سیاست میں آئے چار دہائیاں ہو چکی ہیں ان چار دہائیوں میں بہت سی اونچ نیچ دیکھنا پڑی اور ہر کسی کو لگا کہ ان کی سیاست ختم لیکن نواز شریف موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی خاص مسکراہٹ سے سب کو شکست دیکر ہر بار واپس آ جاتے ہیں ،یہ ان کی خوش قسمتی ہے ۔میرے اور بھی بہت سے دوست میاں صاحب پر لکھ چکے ہیں۔ کوئی انہیں قسمت کا دھنی قرار دیتا ہے تو کوئی انہیں مقدر کا سکندر کہتا ہے،’ کوئی کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‘ تو کوئی کہتا ہے’ ایہوجے پت جمن ماواں کدرے کدرے کوئی (اس طرح کے بیٹے مائیں کبھی کبھی پیدا کرتی ہیں )کسی بھی شخص کیلئے یہ انعام قابل رشک ہے۔ 1993ءمیں جب نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنےاور ایک اسٹریٹجی سے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت ختم ہو گئی تو دوسری بار قسمت نےپھر موقع دیا ،وزیر اعظم بنے لیکن اس بار جنرل پرویز مشرف کی وجہ سے گھر بھیج دیئے گئے اور ان پر جہاز اغوا کرنے کا مقدمہ لگایا گیا نہ صرف حکومت گئی جلاوطنی بھی برداشت کرنی پڑی اور لگا اب اس بار دنیا کی کوئی طاقت انہیں واپس سیاست میں نہیں لا سکتی لیکن 10ستمبر 2007ء کو جلاوطنی ختم ہوئی اور وہ پاکستان واپس لوٹے یہ الگ بات ہے کہ انہیں اسی وقت واپس جدہ بھیج دیا گیا۔
کہانی میں ایک بار پھر ٹوئسٹ (TWIST)آیا ، قسمت ان پر ایک بار پھر مہربان ہوئی اور 2012ء میں وہ تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے یہ اعزاز بھی نواز شریف ہی کو جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے لونگسٹ سرونگ پرائم منسٹر LONGEST SERVING PRIME MINISTER رہے۔ اپنے تین ادوار میں برسوں سے زیادہ خدمات انجام دیں مگر نواز شریف کا امتحا ن یہیں ختم نہیں ہوا 2017میں جو ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور نہ ہی یہ زیادہ پرانی بات ہے ۔ پانامہ کا بہانہ بنا کر انہیں ایک بار پھر رخصت کیا گیا اور اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے جیل بھی کاٹی وہ بھی اپنی بیٹی کے ساتھ جو کسی بھی باپ کیلئے آسان نہیں ۔نواز شریف نے ان تمام حالات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا خصوصاً جب وہ بیگم کلثوم نوازکو بستر مرگ پرچھوڑ کر اپنی بیٹی مریم کے ساتھ وطن واپس آئے اور جیل گئے، اس پر ہر درد دل رکھنے والا انسان دل گرفتہ ہوا ،انہیں صرف جیل ہی کی سختیاں برداشت نہیں کرنی پڑیں بلکہ عمران خان کی صورت میں ایک کم ظرف دشمن کا بھی مقابلہ کرنا پڑا!جیل میں تمام تکالیف برداشت کرتے کرتے وہ بیمار سے بیمارتر ہوتے چلے گئے مگر ملک سے باہر جانے کا نام نہیں لیا ۔حتیٰ کہ ان کے دشمنوں کو یہ ڈر لگنے لگا کہ اگر ان کو جیل میں کچھ ہو گیا تو قوم انہیں معاف نہیں کرے گی چنانچہ انہیں ملک سے باہر جانے پر رضامند کیا گیا لیکن پھر وہی جھوٹا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ڈیل کے نتیجے میں باہر گئے ہیں۔حالانکہ تمام رپورٹس مرتب کرنے والے ڈاکٹر یاسمین راشد اور ڈاکٹر فیصل سلطان تھے اور انہی کے مشورے کے بعد باہر بھیجا گیا تھا، اس کے بعد عمران خان کو لگا کہ انہوں نے اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگا دیا اور وہ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے لہٰذا اب وہ من مانی کرسکیں گے ۔خان صاحب کو ماحول بھی اس قسم کا مہیا کیا گیا یعنی’ گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے‘ لیکن اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے 2022ءمیں خان صاحب کی حکومت کو بھی گھر جانا پڑا اور پھر چودہ جماعتوں کی مخلوط حکومت قائم ہوئی ، اگرچہ یہ سارا دورانیہ بہت مشکل تھا اور ایسے میں جب لوگ کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ نون اب آخری سانسیں لے رہی ہے تو میاں صاحب ایک بار پھر دبئی سےپاکستان آ گئے اور عوام نے ان سےبہت سی امیدیں بھی وابستہ کرلی ہیں، اللہ کرے مقدر کا یہ سکندر عوام کی تقدیر ہی بدل کر رکھ دے۔موجودہ نگران وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کہا ہے کہ نواز شریف کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا اور ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ کوئی بھی شخص یا ادارہ قانون سے بالا تر نہیں ۔یہ سب اپنی جگہ مگر مسلم لیگی یہ بات نہ بھولیں کہ ان کا پالا جس شخص سے پڑا ہے وہ بھی قسمت کا دھنی ہے اب دیکھنا ہے کہ جب الیکشن ہوں گے تو کون واقعی مقدر کاسکندر کہلائے گا۔
مسلم لیگ ان دنوں بہت فعال ہو گئی ہے کاش وہ میاںصاحب کی آمد کے اعلان سے پہلےہی عوام سے اس طرح رابطے میں ہوتی جیسے آج نظر آتی ہے چلیں دیر آید درست آید مگر یہ بات اسے ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ پی ٹی آئی کے چاہنے والے خاصی بڑی تعداد میں ہیں اور سوشل میڈیا پر بہت ووکل بھی ہیں لہٰذا اپنے حریف کو ایزی نہیں لینا چاہئے چنانچہ اگر الیکشن ہوتے ہیں اور نواز شریف کو عوام اپنا وزیراعظم منتخب کرتے ہیں تو جہاں پارٹی کو ازسر نو منظم کیا جانا چاہئے اور خامیاں دور کرنی چاہئیں وہاں ایک بات ذہن نشین کر لی جائے تو بہتر ہے کہ خدمات کا وہ سلسلہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ زور شور سے شروع ہونا چاہئے جو نواز شریف کا خاصا رہا ہے ملک معاشی بحران کا شکار ہے دوست ممالک سے نوازشریف نے پاکستان کے تعلقات مضبوط بنانے تھے، وہ عمران کی حکومت میں کمزور ہوتے چلے گئے اب یہ تعلقات مضبوط سے مضبوط تر بنائے جانے چاہئیں۔ ن واز شریف کو بار بار حکومت سے بے دخل کیا جاتا ہے، ان پر سراسر بیہودہ، جھوٹ اور لغو مقدمات بنائے جاتے ہیں اور اب عوام کی نظرمیں ان الزامات کی حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی ہے کہ انکی حریف سیاسی جماعتیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ نواز شریف ہر دور میں ناانصافی کا شکار ہوئے ،بہرحال اب ’’ڈاکٹر ‘‘نواز شریف واپس پاکستان آگئے ہیں ’’مریض‘‘ کی ساری ’’رپورٹیں‘‘ انکے سامنے ہیں اللّٰہ کرے ان کے دست شفا سے پاکستان دوبارہ تندرست و توانا ہو جائے!