دم تحریر:آج بروز ہفتہ ’’اُمید کی پرواز‘‘ پر جب نواز شریف لاہو رکی تاریخی یادگار پہ تاریخی جلسہ سے مخاطب ہونگے تو کیا تاریخ رقم ہوگی؟ پہلے بھی تین بار تاریخ رقم ہوئی تھی اور چراغ گل کردئیے گئے تھے۔ میاں صاحب کی واپسی کیسے ممکن ہوئی کن شرائط پہ ہوئی؟ باہر کیسے گئے اور واپس کیسے آئے؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔ البتہ یہ کہنا بنتا ہے کہ نواز شریف تین بار وزارتِ عظمیٰ سے ناجائز طور پر نکال باہر کیے جانے کے باوجود ہر بار پلٹ آنے میں کامیاب ہوتے رہے۔ پھنس کر نکلنے اور واپس پلٹنے میں انکا کوئی ثانی نہیں۔ وہ گریٹ سروائیور ہیں۔ مقتدرہ کے سیاسی گناہوں کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے دبنگ اعلانات اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی دہائی دینے کے بعد وہ جس طرح منت زاریاں کرواتے ہوئے گوشہ عافیت سدھارے اور اب اپنا مقدمہ اللہ کے حوالے کرتے ہوئے ’’آئو پھر سے سنبھالو، یہ ملک بچالو‘‘ کے نعروں کی گونج میں پرتپاک استقبال سے باغ باغ ہوئے جارہے ہیں۔ کیا سیاسی کایا پلٹ ہے یا پھر قلا بازی؟ ناانصافی کے ازالے اور ’’ہموار میدان‘‘ کی فراہمی کی فرمائشیں ایک حد تک پوری ہوتی لگتی ہیں۔ عالیشان پروٹوکول سے ایسی واپسی کب کسی نے دیکھی؟ خواہشیں کتنی پوری ہوتی ہیں، اور اصل میں کتنی برآئیں گی یہ تو سیاسی تقدیر کے کاتب ہی جانتے ہیں۔ وِلن عمران خان سلاخوں کے پیچھے اور نواز شریف میدان میں ہیں اور مدمقابل کوئی بھی نہیں۔ پرانا بیانیہ دفن اور نیا بیانیہ ہر سو گونج رہا ہے: ’’ملک سنبھالو، ملک بچالو‘‘ (لیکن جنہوں نے بلاشرکت غیرے سنبھالنا اور بچانا ہے، وہ مملکت خداداد کو اپنے آہنی ہاتھوں میں پہلے ہی سے لے چکے ہیں)۔ لاہور کے جلسے کی زبردست تیاریاں ہیں (جسکی روح رواں دو مریم بیبیاں ہیں) جو اچھا خاصا کامیاب ہوتا دکھائی پڑتاہے۔ میدان میں اسوقت وزیراعظم کا ایک ہی امیدوار ہے، وہ ہے نواز شریف ! وزارت عظمیٰ کے دوسرے ممکنہ اُمیدوار ہونہار بلاول بھٹو کے پرواز سے پہلے ہی پدرانہ شفقت کے ہاتھوں پرکاٹ دئیے گئے ہیں۔ لیکن ایک چبھتا ہوا سوال ہے کہ کیا میاں صاحب کو چوتھی بار وزارت عظمیٰ کی گدی پر بیٹھنے دیا جائے گا یا یہ کہ انکی بھاری بھرکم شخصیت کا بار پھر سے اُٹھانے کی کسی میں کتنی سکت ہے؟
میاں صاحب لندن سے نہیں آرہے، روضہ رسول پہ دعائیں مانگ کر اور خانہ کعبہ کا طواف کر کے آرہے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول سے معافی مانگ کر اور اپنے دشمنوں کی معافی اللہ کے سپرد کرکے آرہے ہیں۔ اس مقدس سرزمین پہ سجدہ کر کے آرہے ہیں جنکے حکمران مامور من اللہ ہیں اور جنکی مشرقِ وسطیٰ کے جنوبی ایشیا خاص طور پر برصغیر کے ساتھ نئے بندھن باندھنے کی نئی سوچ میاں صاحب کی پرانی سوچ سے ہم آہنگ ہے۔ جیو اسٹرٹیجک سلامتی کی جگہ، اب معاشی سلامتی کی جانب مجبوراً مراجعت میاں صاحب کے کردہ و ناکردہ گناہوں کی بخشش کیلئے کافی ہے۔ وہ اس تبدیلی کیلئے موزوں سیاسی عامل ہوسکتے ہیں، لیکن آنکھ کے تارے وہ نہیں، نیویں نیویں، پیچھے پیچھے آداب بجالاتے شہباز شریف کی سویلین اقتدار مقتدرہ کے پائوں پہ رکھنے کی اسپیڈ کا کوئی متبادل نہیں۔ کہیں یہ نہ ہو کہ دکھ بھریں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں! بعداز انہدام ہائبرڈ رجیم (عمران- 1) اور 16 ماہ کے ہائبرڈ رجیم- 2 (شہباز حکومت ) نے تقریباً تمام سویلین سپیس چھائونی کے حوالے کردی ہوئی ہے۔ اب وفاق اور صوبوں میں کابینائوں سے بالا بالا ایپکس کمیٹیوں کا راج ہے، آئینی نظام حکومت کب کا فارغ ہوا۔ جو بچا کھچا ہے اس پر کاکڑ ماڈل ہی صادق آتا ہے۔ اگر انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہ ہوئے، پھر میدان میں ایک ہی شیر دھاڑے گا تو انتخابی ساکھ کے پلے کیا رہ جائے گا؟ اب تک کے قرائن سے تو یہی ظاہر ہے کہ عوام کے بنیادی حق رائے شماری کو ٹھکانے لگانے کا پورا پورا بندوبست کرلیا گیا ہے۔ عمران خان کی نکمی ہائبرڈ حکومت اور شہباز شریف کی دوسری ہائبرڈ حکومت کی ناکام اسپیڈ کے بعد اور مخالف کیمپوں میں بٹے سیاستدانوں کی چھائونی کی چاپلوسی کے ہاتھوں جمہوریت اور سویلین حکمرانی کے پلے بچاہی کیاہے؟مقتدرہ سے عوامی بغضِ معاویہ اور پرانی قیادتوں سے بیزاری سے عمران خان کو پذیرائی تو ملی جو اس نے اپنی نرگسیت پسندانہ مہم جوئی اور کینہ پروری کی نذر کردی۔ اب جیل میں سائیکل کی سواری بھی میسر نہیں۔ 9 مئی جیسے واقعات تو دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں جیسے امریکہ کے گزشتہ انتخابات کے بعد کیپٹل ہل پر ٹرمپ کے حامیوں کا حملہ۔ لیکن پاکستانی ٹرمپ کے جانثار بھول گئے کہ پاکستان کی چھائونیوں میں احتجاج اور وہ بھی پنجاب میں کرنے کے کیا سنگین مضمرات ہونگے۔ وہ تو جیسے شالامار گارڈن کی سیر کو نکلے تھے اور بعد میں معافیوں اور آہ وزاریوں کے سوا کوئی نعرہ مستانہ بلند نہ ہوا جیسے کہ ہم جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان اور جنرل ضیا الحق کے خلاف عوام کی مزاحمتی جنگ کی صورت دیکھ چکے تھے۔ ناکام و ناپختہ مزاحمت مسلسل جمہوری جدوجہد کے خلاف اشتعال انگیزوں کے کام آتی ہے۔ آج کا سیاسی مزاحمتی سناٹا اسی کا خمیازہ ہے اور سب کی سب پارٹیاں جمہوریت کی صفیں لپیٹ کر آمرانہ قوتوں کے سامنے کورنش بجالائی ہیں۔ اب میدان میں کوئی ٹھہرے بھی تو کیسے کہ شیخ رشید جیسے کاسہ لیسوں کو بھی چلہ کاٹنا پڑتا ہے۔
اس جمہوری سناٹے میں نواز لیگ نے فتح کے راگ ابھی سے الاپنا شروع کردئیے ہیں۔ حالانکہ ملک کو درپیش سیاسی، معاشی، اداراتی اور آئینی بحران کسی ایک سیاستدان، کسی ایک جماعت اور کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں۔ بندوق کی نالی سے مسئلے حل نہیں ہوتے اور نہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا ہوا ہے۔ مصر بننے یا میانمار کی راہ لینے والے ذرا سوچیں پاکستان کی تاریخ میں حالات ہاتھ سے نکلتے دیر نہیں لگتی۔ یہ ہم 1968، 1970، 1986 اور 2018 کے تاریخی یدھوں میں بار بار دیکھ چکے ہیں۔ پاکستان کے ہر مقبول اور منتخب وزیراعظم کے ساتھ کئے جانے والے سلوک سے پاکستان کے تشخص کے پلے کوئی مہذبانہ پہلو بچا ہے یا ملک کی کوئی کل سیدھی ہوئی ہے؟ کل حسین شہید سہروردی، شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو ، نواز شریف اور آج عمران خان سب کے سب سلامتی کیلئے خطرہ کیوں ٹھہرے؟ اب ایک اور سابقہ وزیراعظم اور قومی ہیرو کو قومی راز فاش کرنے کے جرم میں اور نہ جانے کون کون سے جرائم میں قید و بند میں انصاف کی سولی پہ چڑھائے جانے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ خدارا ہمیں بریک دیں۔ آگے بڑھیں! میاں نواز شریف اسوقت سینئر ترین رہنما ہیں، انہیں سولو پرواز کی بجائے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نئے چارٹر آف ڈیموکریسی ، چارٹر آف انسانی حقوق اور چارٹر آف اکنامکس پہ ایک ساتھ بیٹھنے کی دعوت دینی چاہیے۔ جب تک سیاستدانوں میں رولز آف دی گیم اور جمہوری چلن پہ اتفاق نہیں ہوتا اور ادارے آئین کی پاسداری نہیں کرتے، ہمارا ملک یونہی اندھیروں میں بھٹکتا رہے گا۔ ایسے میں آج ہی کے دن یہ پوچھنا چاہیے کہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کے اُمیدوار نواز شریف عوام سے کیا نیا عمرانی معاہدہ کرنے جارہے ہیں؟