اس دنیاکے سب سے سفاک اور خطر ناک دشمن اسرائیل ،جس کومشرق وسطیٰ کےمسلمانوں کے سینے پر ایک رستے ہوئے ناسور کے طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلط کر دیا گیا ، ہر تین چارسال بعد مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کا عادی ہو چکا ہے ۔ اسرائیل کا وجود اور اس کے خونخوار اقدامات مہذب دنیا کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک جو جانوروں کے حقوق کےبھی علمبردار ہیں ۔ اسرائیل کی خونریزی اور فلسطینی مسلمانوں خصوصاً بچوں کا قتل عام پر نہ صرف چپ سادھے رہتے ہیں بلکہ اسرائیل کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ امریکی سیاست میں اسرائیل کی حمایت انتخا بات میں کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ 350 کے امریکی ایوان میں 300 ارکان اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیںاور امریکی میڈیا بھی اسرائیل کو سپورٹ کرتاہے۔ اسرائیل کے کالے کرتوت پر مبنی کوئی رپورٹ امریکی میڈیا میں چھپنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔7 اکتوبر سے اسرائیل غزہ کے نہتے مسلمانوں پر بارود برسا رہا ہے جس کی وجہ سے تین ہزار سے زائد نہتےمسلمان جن میںاکثریت بچوں کی ہے شہید ہوگئے ہیں مگر پوری دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جو فلسطینی بچوںکی پکار سنے اور انہیں اسرائیل کےظلم سے نجات دلائے ۔ غز ہ کی آبادی نصف سے زائد بچوں پر مشتمل ہے اسرائیل دن رات ا ن پر آگ برسا رہا ہے۔ان کی آنکھوںمیں مستقبل کی چمک موت کی اداسی میں تبدیل ہو رہی ۔غزہ کی پٹی اس وقت اسرائیل کی شدید ترین بمباری کی زد میں ہے۔ سکول، ہسپتال، ایمبو لینس گاڑیاں اور پناہ گزین کیمپوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے باسیوں کو شمال سے جنوب کی طرف نقل مکانی کا حکم دیا اور پھر منتقل ہونے والے غزہ کے نہتے مسلمانو ں ،جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی،پر بمباری کردی۔
اسرائیل نے سفاکیت کا شدید تر ین مظا ہرہ کرتے ہوئے غزہ کے ہسپتال پر بمباری کی اور پانچ سو سے زائد عورتوں اور بچوں کو شہیدکر دیا ۔ ہسپتال پر بمباری کا مہذب دنیا تو کیا زمانہ جاہلیت میں بھی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اب بھی مہذب دنیا کی آنکھیں نہیں کھلیں اور وہ امریکہ کی ناجائز اولاد کا دفاع کرنے میں مصروف ہے ۔ فرانسیسی صدر ایرانی صدر کو فون کر کے دھمکی آمیز لہجے میں اس تنازع سے دور رہنےکی تلقین کر رہے ہیں ۔ یورپی ممالک کو خطرہ ہے کہ اگر ایران اس جنگ میں کود پڑا تو اسرائیل کی بقا خطرےمیں پڑ جائے گی۔ دوسری طرف وہ لبنان میں موجود حزب الله کو بھی اس جنگ سے دور رکھنے کی کوشش جاری ہے۔ در اصل ان سب کی کوشش ہےکہ مسلمان کسی طور متحد نہ ہو سکیں۔مسلمانوں کی نااتفاقی خون مسلم کے ضیاع کا باعث بن رہی ہے ۔انڈ ونیشیا اور سوڈان کے عیسائی اکثریت کے علاقوں کو بے چوں چرا آزادی کی نعمت پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی جاتی ہے جبکہ مسلمانوں کو فلسطین ،کشمیر میانمار میں جانوں کی قربانی دینے کے باوجود بین الاقوامی قرار دادوں کی موجودگی میں آزادی سے انکار کیا جا رہا ہے۔اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئےجب روس نے سلامتی کونسل میں قرار داد پیش کی تو اس کو امریکہ برطانیہ اور انکےحلیفوں نے ناکام بنا دیا ۔یہ کیسا تضاد اور مذاق ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اقوام متحدہ فوری پر اسرائیل کو غزہ میں بمباری سے روکےاور فلسطین میں اقوام متحدہ کی امن فوج کو تعینات کیا جائے جو اسرائیل کے فلسطینیوں پر مظالم روکے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیتے ہوئے اس پر فوری طور پر انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں مقدمہ چلایا جائے جس نے دھوکہ بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں نہتے مسلمانوں خصوصاً عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا ۔ مسلمان بچوں کی پکار عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے۔ مسلمان بچے پکار رہے ہیں کہ ان کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ کیوں انکے گھروں کو کھنڈرات میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔اسرائیل نےکس قانون کے تحت پانی بجلی پیٹرول اور کھانے پینے کی اشیاء بشمول ادویات کی سپلائی منقطع کی ہے ؟دنیامیں کوئی ہے جو ان معصوم بھو کے بلکتے بچوں کی پکار سنے اور انہیں اسرائیل کےظلم سے نجات دلائے ۔ میڈیا پر معصوم بچوں کے کٹے پھٹے لاشے ظالم اسرائیلی فوجیوں اور نیتن یاہو کے دل پر کوئی اثر نہیں کر رہیں ۔ امریکی صدر اپنے وزیر خارجہ کے ناکام دورہ کے بعد خود اسرائیل کے دفاع میں اسرائیل پہنچ چکے ہیں،جدہ میں اسلامی کانفرنس کے رکن ممالک کی میٹنگ شروع ہو چکی ہے جوحسب معمول نشستند گفتند اور برخاستندپر ختم ہو گی۔ فلسطین کے بچے سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے غیرت مند جر نیلوں کے منتظر ہیںجو اسرائیل کے آہنی جبڑے کو چیرتے ہوئے اسے لگام دیں۔اسرائیلی جہازوں کو تباہ کردیں۔ کبھی تو ان مظلوموں کی پکار سنی جائے گی اور ان کی مدد کو اللہ کی جانب سے نامز د کوئی اس کا بندہ ضرور آئے گا۔ جس کے سامنے اسرائیل گھٹنے ٹیک دے گا۔