• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چار سال پہلے نواز شریف کو ہوائی جہاز پر بیرون ملک روانہ کیا گیا تو میں نے ایک کالم لکھا تھا۔ کالم کا عنوان تھا ’’میں تمہیں بہت رلائوں گا‘‘۔ 21 نومبر 2019ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اس کالم میں کہا گیا تھا کہ ایک سزا یافتہ مجرم کا جہاز پر چڑھنا بھی حیران کن ہے اور اس کی واپسی بھی حیران کن ہوگی۔ 

اس کالم کا اختتام ان الفاظ پر کیا تھا کہ پاکستان میں جو سیاسی فلم چل رہی ہے اس کا دی اینڈ بہت درد ناک ہوگا۔ ہیرو ولن اور ولن ہیرو بن جائے گا اور انہیں رلائے گا جو نواز شریف کو کہتے تھے کہ میں تمہیں بہت رلائوں گا۔ 

چار سال پہلے عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ہیرو اور نواز شریف ولن تھے۔ میڈیا کو حکم دیا جاتا تھا کہ ہیرو کی حکومت کو کامیاب بنانے کیلئے پازٹیو رپورٹنگ کی جائے۔ 

جب میں نے مذکورہ کالم میں لکھا کہ ہیرو ولن اور ولن ہیرو بن جائے گا تو پازٹیو رپورٹنگ کا حکم دینے والوں نے بڑی شاہانہ تمکنت سے پوچھا کہ ہمارا ہیرو ولن کیسے بن جائے گا؟ 

بڑی عاجزی سے طاقتور لوگوں کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور یہ خبر نہیں ہے بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی روشنی میں صرف ایک حقیر سا تجزیہ ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آپ جسے بھی زبردستی ہیرو بناتے ہیں اسے آپ خود ہی ولن بنا دیتے ہیں۔ 

کہا گیا کہ کوئی مثال پیش کی جائے۔ اس ناچیز نے بڑی ملائمت سے پھر عرض کیا کہ دور نہ جائیں آپ نے تین دفعہ نواز شریف کو وزیر اعظم بنایا تینوں مرتبہ اسے ولن بنا کر حکومت سے نکالا۔ دو مرتبہ جلا وطن کیا دونوں مرتبہ وہ واپس آیا تو تیسری مرتبہ بھی ضرور واپس آئے گا۔ 

طاقتور لوگ ناراض ہوگئے اور عمران خان بھی ناراض ہوگئے۔ 

21 اکتوبر 2023ء کو نواز شریف لندن سے پاکستان واپس آگئے اور ہمارے خان صاحب جنہوں نے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا تھا کہ میں تمہیں بہت رلائوں گا وہ ہیرو سے ولن بن کر اڈیالہ جیل میں پہنچ چکے ہیں۔ 

نواز شریف نے پاکستان واپسی پر مینار پاکستان کے سائے تلے ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ ان کا لہجہ محتاط تھا۔ انہوں نے مرزا غالب کے ایک شعر کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ ؎

غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے

بیٹھے ہیں ہم تہیہ طوفان کئے ہوئے

نواز شریف نے اپنی تقریر میں یہ سوال تو اٹھایا کہ وہ کون ہے جو ہر چند سال کے بعد انہیں اپنے لوگوں سے جدا کردیتا ہے؟ انہوں نے جلسے کے شرکا سے کہا کہ آپ جانتے ہیں ناں میری حکومت کے خلاف دھرنے کون کروا رہا تھا؟ یہ دو سوال تو اٹھا دیئے لیکن دھرنے کرانے والوں کا نام نہیں لیا البتہ دھرنے کرنے والے عمران خان کا صرف ایک دفعہ نام لیا جس کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ 

نواز شریف اتنے زیادہ محتاط تھے کہ یہ بھی نہ بتایا کہ وہ 2019ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی اجازت سے صرف چار ہفتے کے لئے علاج کی غرض سے لندن گئے تھے لیکن چار ہفتے کی بجائے چار سال کےبعد واپس کیوں آئے؟ کیا انہیں زبردستی جلا وطن کیا گیا تھا؟ 

کیا وہ کبھی یہ بتائیں گے کہ 2018ء میں انہیں لندن سے پاکستان واپسی سے کون منع کر رہا تھا؟ پاکستان واپسی پر وہ کس کے حکم سے گرفتار ہوئے؟ 

انہوں نے یہ تو بتا دیا کہ اڈیالہ جیل کے نگران نے بستر مرگ پر پڑی ان کی اہلیہ سے فون پر بات نہیں کرائی اور کوٹ لکھپت جیل میں ان کی آنکھوں کے سامنے مریم کو گرفتار کرلیا گیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ احکامات کہاں سے آ رہے تھے؟ 

اچھی بات ہے کہ نواز شریف نے محاذ آرائی کی بجائے سب اداروں اور جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت پر زور دیا لیکن وہ اس تاثر کو کیسے زائل کریں گے وہ اسی طریقے سے چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنیں گے جس طریقے سے عمران خان پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تھے۔ 

2018ء میں نواز شریف ولن تھے۔ 2023ء میں عمران خان ولن ہیں۔ 2018ء میں عمران خان ہیرو تھے اور 2023ء میں نواز شریف کو ہیرو کہا جا رہا ہے۔اگر انہوں نے بھی اسی طریقے سے وزیر اعظم بننا ہے جس طریقے سے عمران خان بنے تھے تو کیا وہ دوبارہ ویسے انجام سے دو چار نہیں ہو سکتے جس انجام سے خان صاحب دو چار ہوئے ہیں؟ 

نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ 9 مئی والے نہیں بلکہ 28 مئی والے ہیں۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف نے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کئے لیکن کیا 12اکتوبر 1999ء کو انہیں وزیر اعظم ہائوس میں گھس کر گرفتار نہیں کیا گیا تھا؟ جب وہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو کیا اس ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے انہیں نااہل قرار نہیں دیا تھا؟ 

نواز شریف تین مرتبہ بطور وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکے۔ کیا انہوں نے کبھی 9 مئی جیسی کوئی سازش کی تھی؟ اگر وہ تین مرتبہ 9 مئی جیسی سازش کے بغیر حکومت سے نکالے جا سکتے ہیں تو یہ سانحہ چوتھی مرتبہ بھی ہو سکتا ہے۔ 

اصل بات یہ ہے کہ تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور آئین کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔ 

مینار پاکستان کے جلسے میں نواز شریف نے بہت اچھی باتیں کیں لیکن انہوں نے آئین کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ جلد از جلد انتخابات کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ ان کی واپسی نے ان سب کو غلط ثابت کردیا جو کہتے تھے کہ نوازشریف کی سیاست ختم ہوگئی۔ 

نواز شریف کی واپسی خوش آئند ہے لیکن وہ مت بھولیں کہ انہوں نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا تھا۔ ووٹ کی عزت آئین کی عزت سے مشروط ہے۔ آئین کا احترام ہوگا تو انہیں بار بار ولن نہیں بنایا جائے گا۔ 

انہوں نے مینار پاکستان پر اپنی تقریر میں جن تکالیف کا ذکر کیا وہ صرف ان کی ذات اور جماعت تک محدود نہیں۔ انہیں یہ تو یاد ہے کہ 2017ء میں ایک سازش کے ذریعے انہیں نااہل قرار دیا گیا۔ وہ یہ بھی یاد رکھیں کہ 2012ء میں بھی ایک وزیر اعظم کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا جس کا نام یوسف رضا گیلانی تھا۔ گیلانی کو نااہل قرار دلوانے والے درخواست گزاروں میں نوازشریف بھی شامل تھے۔

کیا یہ بھی سازش نہیں تھی؟ کیا عمران خان کو نااہل قرار دینے سے پاکستان کے سب مسائل حل ہو جائیں گے؟ 

مینار پاکستان کے جلسے میں سب سے خوبصورت لمحہ وہ تھا جب ایک سفید کبوتر نواز شریف کے سامنے آ بیٹھا اور انہوں نے اسے اپنے ہاتھ پر بٹھا کر ہاتھ کو فضا میں بلند کردیا۔ سفید کبوتر محبت اور وفا داری کی علامت ہے۔ سفید کبوتر کا نواز شریف کے ہاتھ پر بیٹھنا نیک شگون ہے۔ 

امید ہے نواز شریف کی واپسی بھی پاکستان میں جمہوریت کے لئے نیک شگون ثابت ہوگی اور وہ آئین کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے۔ 

انتخابات کو مزید ملتوی نہیں کیا جائے گا لیکن اگر انہوں نے اسی طریقے سے وزیر اعظم بننے کی کوشش کی جس طریقے سے 2018ء میں عمران خان کو زبردستی وزیر اعظم بنایا گیا تھا تو وہ یاد رکھیں کہ یہ وہ پاکستان نہیں جسے وہ چار سال قبل چھوڑ کر گئے تھے۔ پاکستان بدل چکا ہے۔ 

اگر ماضی کی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا گیا تو پوری قوم کے جوش اشک سے کوئی ایسا طوفان آئے گا جس کے بعد ہمارے پاس صرف پچھتاوے رہ جائیں گے۔

تازہ ترین