• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

4سالہ خود ساختہ جلاوطنی کے بعد ’’اُمید پاکستان فلائٹ‘‘سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی پاکستان واپسی سے ان کے مخالفین کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے جو بڑے وثوق سے یہ دعوے کرتے رہے کہ نواز شریف کی سیاست ختم ہوگئی ہے اور وہ کبھی وطن واپس نہیں آئیں گے ۔ مینار پاکستان پر ملک بھر سے آئے لاکھوں عوام نے نواز شریف کا والہانہ استقبال کرکے مخالفین کو حیرت زدہ کردیا ۔نواز شریف کی واپسی اور عوام کے جم غفیر سے خطاب نے پارٹی میں ایک نئی روح پھونک دی اور یہ غلط ثابت کردیا کہ پارٹی کی مقبولیت پہلے کی طرح نہیں رہی۔ لاہور کے کامیاب پاور شو نے یہ واضح پیغام بھی دیا ہے کہ پنجاب کی سیاست میں (ن) لیگ ہی ایک مقبول جماعت ہے ۔ 2017 میں جس طرح ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا گیا، انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، اُن کیخلاف مقدمات بناکر جلاوطنی پر مجبور کیا گیا،ایسے میں انتقام کی آگ پیدا ہونا قدرتی عمل ہے مگر نواز شریف کے اس موقف سےکہ ’’اگر انہیں دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو وہ مخالفین سے کوئی انتقام نہیں لیں گے۔‘‘ ان لوگوں کو ، جو یہ توقع کررہے تھے کہ نواز شریف اپنی تقریر میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور عمران خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنائیں گے،مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔

میرے لئے یہ ایک اعزاز تھا کہ میں میاں نواز شریف کی ’’امید پاکستان فلائٹ‘‘ میں اُنکے ہمراہ تھا۔ میں نے اُنکے چہرے پر وہ اطمینان دیکھا جو اللہ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے۔ فلائٹ میں نواز شریف کے قریبی ساتھی ناصر جنجوعہ جو 4 سالہ جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہے اور نواز شریف کا ساتھ دینے کی بڑی قیمت چکائی، کے علاوہ سینیٹر عرفان صدیقی اور نواز شریف کی جلاوطنی میں ہر قدم ساتھ دینے والے شکور کریم بھی موجود تھے جبکہ میرے ہمراہ نواز شریف کے دیرینہ ساتھی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد بیٹھے تھے۔ پاکستان روانگی سے قبل نواز شریف کو دبئی ایئرپورٹ پر یو اے ای حکومت نے خصوصی پروٹوکول کے ساتھ رخصت کیا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ خلیجی ممالک کے حکمراں نواز شریف کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ طیارے میں، میں نے نواز شریف سے مصافحہ کرتے ہوئے انہیں وطن واپسی پر مبارکباد دی اور بتایا کہ میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ اس تاریخی سفر میں آپکے ہمراہ ہوں۔ فضائی سفر کے دوران وقتاً فوقتاً ماحول ’’نواز شریف زندہ باد، وزیراعظم نواز شریف‘‘ کے نعروں سے گونجتا رہا۔ اس دوران بیشتر وقت نواز شریف اپنی تقریر لکھنے میں مصروف رہے۔ طیارے نے جب اسلام آباد ایئر پورٹ پر لینڈ کیا تو میاں صاحب نے ہاتھ اٹھاکر دعا کی۔

دوران فلائٹ میں اپنی نشست پر بیٹھا میاں صاحب کے بارے میں سوچ رہا کہ انہیں کئی مرتبہ آزمائشوں میں ڈالاگیا مگر وہ ہر بار آزمائش پر پورے اترے اور جب بھی وطن واپس لوٹے، زیادہ قوت کے ساتھ آئے۔ ان آزمائشوں کے دوران نواز شریف کی زندگی میں دو خواتین نے اہم کردار ادا کیا۔ ایک ان کی اہلیہ کلثوم نواز ،جب پرویز مشرف نے نواز شریف کو پابند سلاسل کیا تو وہ چٹان کی طرح اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی تھیں اور مشرف حکومت کی ظلم زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف سڑکوں پر نکلیں۔ دوسری اُن کی بیٹی مریم نواز جو پی ٹی آئی دور حکومت میں اپنے والد نواز شریف کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی رہیں اور مفاہمت کے بجائے مزاحمت کی سیاست اپنائی۔ مریم نواز اپنے موقف پر آخری وقت تک ڈٹی رہیں اور نواز شریف ایک فاتح کے طور پر وطن واپس لوٹے۔ وہ منظر بھی بڑا دل موہ لینے والا تھا جب مریم نواز نے نم آنکھوں کے ساتھ اپنے والد کے ماتھے کو چوما ، جس نے ہر دیکھنے والے کی آنکھیں نم کردیں۔

4 سالہ جلاوطنی کے دوران مجھے نواز شریف سے لندن میں 3 بار ون ٹو ون ملاقات کا موقع ملا۔ کچھ ماہ قبل ہونیوالی ملاقات میں، میں نے میاں نواز شریف کو تجویز پیش کی تھی کہ وہ الیکشن سے قبل وطن واپس لوٹیں، وہ عوام کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور عوام اُن کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں، اگر وہ عوام کو یہ باور کرائیں کہ موجودہ معاشی صورتحال اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ ان کی حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا اور ایک ایسے شخص کو لاکر بٹھادیا گیا جسے پاکستان سے زیادہ اپنا مفاد عزیز تھا ،جس نے پاکستان کو 4 سال میں بینک کرپسی کے قریب پہنچا دیا۔ اگر وہ واپس آکر لوگوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اب وہ آگئے ہیں اور ان شاء اللہ انکی مشکلات بہت جلد دور کردیں گے تو ماضی کی خدمات کے پیش نظر عوام مسلم لیگ (ن) کو ضرور کامیابی سے ہمکنار کرینگے ۔ لوگوں نے دیکھا کہ نواز شریف نے اپنی تقریر میں کوئی منفی یا بدلے کی سیاست کی بات نہیں کی اور ملک کو ازسر نو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا 9 نکاتی ایجنڈا قوم کے سامنے رکھا۔ اگر نواز شریف برسراقتدار آئے اور اپنے ایجنڈے پر عمل کیا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔گوکہ میاں نواز شریف نے وطن واپس آکر، پاور شو کا مظاہرہ اور سحر انگیز خطاب کرکے پہلا مرحلہ کامیابی سے طے کرلیا ہے مگر انہیں سیاسی اور قانونی محاذ کا بھی سامنا کرنا ہوگا جس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ انتقام کی سیاست نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم آنے والے وقت میں اس سے اجتناب برتیں۔ پاکستان کو آج سیاسی جماعتوں اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتحاد، یکجہتی، برداشت اور باہمی تعاون کی جتنی ضرورت ہے، وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔

تازہ ترین