• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ باتیں قطعی سمجھ میں نہیں آتیں۔میں محض اپنی بات نہیں کررہا۔ میں آپ کی بات بھی کررہا ہوں۔ آپ چاہے ایم اے ہوں یا پی ایچ ڈی،کچھ سرکاری باتیں، میری طرح آپ کی بھی سمجھ میں نہیں آتیں۔ کچھ لوگ جھوٹی گواہی دینے کے ماہر ہوتے ہیں۔ تیز طرار ،چاق وچوبند وکلا کی موجودگی میں پیشہ ور گواہ، جھوٹی گواہی دیکر عدالت سے سرخرو نکل جاتے ہیں۔ جج صاحبان گواہوں کو دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ جھوٹی گواہی دینے والوں کے کاروبار کو روکنے اور تھامنے کیلئے سرکار نے بڑے بڑے قاعدے اورقوانین بنائے ہیں۔مگر کیا مجال کہ کبھی کوئی ، جھوٹا گواہ قوانین کی پکڑ میں آیا ہو۔ البتہ سچے گواہ عدالتوں میں سچی گواہی دیتے ہوئے وکیلوں کی جرح کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں۔ تھوڑے سے استفسار کے بعد سچے چشم دید گواہ قبول کرلیتے ہیں کہ وہ عدالت میں جھوٹ بول رہے تھے۔ یعنی جھوٹی گواہی دے رہے تھے۔ مگر دھڑلے سے عدالتوں میں جھوٹی گواہی دینے والوں کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ حیرت کا مقام ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ دھڑلے سے جھوٹ بولنے کا ہنر کہاں اور کس ادارے میں سکھایا جاتا ہے۔

فقیر کا علم بہت محدود ہے، اس لیے فقیر نہیں جانتا کہ پاکستان کی کس کس یونیورسٹی میں جھوٹ بولنے کا آرٹ سکھایا جاتا ہے اور یونیورسٹی کی جانب سے جھوٹ بولنے میں ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ فقیر نے یہ دعویٰ اس لیے کیا ہے کہ کوئی بھی شخص ماں کے پیٹ سے جھوٹ بولنے کی تربیت لے کر اس دنیا میں نہیں آتا۔ یہ جھوٹے گواہوں کی جھوٹی گواہیوں کا عبرت ناک کمال ہے کہ بے گناہ تمام عمر ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سلاخوں کے پیچھے گزار دیتے ہیں اور مجرم اور گنہگار آزاد گھومتے پھرتے ہیں اور دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتے رہتے ہیں۔ عیار اور بدکار اپنی نسلوں کو جھوٹی گواہی کا ہنرسکھانے میں کسی قسم کی کسر اُٹھا رکھنےنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ میں نہیں جانتا کہ جھوٹی گواہی کا ہنر کس ادارے یا یونیورسٹی میں سکھایا جاتا ہے۔میں نہیں جانتا، اگر آپ جانتے ہیں تو پلیز فقیر کو ضرور آگاہ کیجئے گا کہ پھانسی دینے کی ابتدائی تعلیم تارا مسیح نے کہاں سے حاصل کی تھی؟ پھانسی دینے میں مہارت حاصل کرنے کیلئے تارا مسیح نے کس کس ادارے میں تربیت حاصل کی تھی؟ پاکستان میں کتنی یونیورسٹیاں ہیں جو پھانسی دینے کی مہارت میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دیتی ہیں؟ میں نے سنا ہے کہ تارا مسیح پانچویں گریڈ کے عہدے پر ایک ادارے میں کام کرتا تھا۔ مگر گریڈوں کی اونچ نیچ سے کیا فرق پڑتا ہے۔ آپ کو اپنے کام سے کام رکھنا ہوتا ہے۔ آپ کا کام پھانسی دینا ہے، تو پھر آپ کے عہدے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ آپ کاکام ہے کسی سزا یافتہ شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا۔آپ سزا یافتہ شخص کو اپنے عہدے کے مطابق موت کی سزا دیتے ہیں۔ آپ بہت بڑے عہدے پر فائز ہیں۔آپ اختیارات کے مطابق گنہگار کو آپ قلم کی نوک سے موت کی سزا دیتے ہیں۔ پانچویں گریڈ کا تارا مسیح پھانسی گھاٹ کا لیور کھینچ کرموت کی سزا ملنے والے شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ مرنے والا شخص مرجاتا ہے۔ مگر اس کو موت کے گھاٹ اتارنے والے دوافسروں کا طریق عمل مختلف ہوتا ہے۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ آپ اُتری ہوئی کھال کے بکرے کی کھال دوبارہ اتار نہیں سکتے۔کوئی افسانہ نگار اپنے افسانے یا ناول میں اپنی کہانی نہیں لکھتا۔ افسانہ نگار تارا مسیح جیسے لوگوں کی کہانیاں لکھتا ہے۔ ادب اور ادیبوں کی پکڑ دھکڑ کرنے والے سند یافتہ ہر لکھی ہوئی کہانی کو، خاص طور پر ضمیر متکلم میں لکھے ہوئے افسانے کو افسانہ نگار کی ذاتی،اپنی کہانی مان لیتے ہیں اور آخر تک اپنی بات پر اڑے رہتے ہیں اور افسانہ نگار کوچھٹی کا دودھ یا ددلادیتے ہیں۔ افسانہ نگار اس دن کو زندگی بھرکوستا رہتا ہے جب اس نے لوگوں کے قصے کہانیاں لکھنے کا جوکھم اپنے سر اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ آپ کسی دیش دروہی کی کہانی لکھیں، وہ بھی ضمیر متکلم یعنیFirst Person Singular میں لکھیں۔افسانہ شائع ہوتے ہی آپ کو دیش دروہی ہونے کے الزام میں دھر لیاجائے گا۔ آپ کے افسانے کو قانون نافذ کرنے والے اعلیٰ عہدیداروں کے آگے ثبوت کے طور پررکھا جائے گا۔ اس نوعیت کی مثالیں ادب کے پنوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ میں نے تارا مسیح کے بارے میں افسانہ لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ تارا مسیح کے بارے میں لکھا جاسکتا ہے، یاتارا مسیح کے بارے میں لکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ سر سے کفن باندھ کر میں تارا مسیح کی تلاش میں نکل پڑا۔میں نے اسے پنجاب کے کونے کونے میں تلاش کیا۔

ہرگلی کوچے کے پھیرے لگائے جہاں پر تارا مسیح کے ہونیکی بھنک میرے کان میں پڑتی تھی۔ کبھی کبھی مجھےمحسوس ہوتا تھا کہ تارا مسیح کی تلاش میں، میں نے زندگی کے اہم ترین اور جواں سال گنوا دیے تھے۔ میں تارا مسیح سے ادب، اخلاقیات، پارسائی، نیکی، حسن عمل کے بارے میں تفصیلی انٹرویو کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ تارا مسیح سے میں صرف اتنا پوچھنا چاہتا تھا کہ لوگ عداوت ،انتقام غیرت، حصولِ املاک، اصول اور غصہ میں آکر ایک دوسرے کو قتل کردیتے ہیں۔ پھانسی گھاٹ کا لیور Leverکھینچتے ہوئے کبھی تمہارے دماغ میں خیال نہیں آیاکہ تم جس شخص کی جان لے رہےہو اس نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا ہے، اس شخص کی تمہارے ساتھ کسی قسم کی عداوت نہیں تھی، دشمنی نہیں تھی، پھر تم کیوں اس شخص کی جان لے رہے ہو؟۔تارا مسیح کوتلاش کرتے کرتے میں بوڑھا ہو گیا، مگر تارا مسیح مجھے نہیں ملا۔پھر کسی نے میرے علم میں اضافہ کیا۔باعلم شخص نے کہا: معاشرہ کبھی بھی تارا مسیح کے بغیر مکمل نہیں ہوتا ۔تارا مسیح ہر دور میں ہوتا ہے۔ وہ سرکاری حکم پرتلوار کے ایک وار سے آپ کا سرتن سے جدا کرتارہا ہے۔ فائرنگ اسکواڈ میں شامل ہوکر وہ آپ کو گولیوں سے چھلنی کرتا رہا ہے۔لیور کھینچ کرآپ کو پھانسی پر لٹکاتا رہا ہے۔ آپ تارا مسیح کے بغیر مکمل معاشرے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

تازہ ترین