رفح شہر، جو غزہ کی پٹی کے جنوب مغرب میں واقع ہے ،کی ایک عمارت پر اسرائیل کے راکٹ حملے میں ایک 28 سالہ خاتون دارین بھی شدید متاثر ہوئی۔ یہ خاتون حاملہ تھی جو عمارت کی تیسری منزل سے دوسری منزل پر آ گری۔ اس حملے میں اُس خاتون کے دو بچے بھی شہید ہوئے۔ اُس خاتون کا شوہر ایمن ابو شمالا بال بال بچا اور جب وہ اپنی اہلیہ کو ڈھونڈتا ہوا اُس تک پہنچا تو اُس کی ابتر حالت کی وجہ سے اُسے پہچان ہی نہ سکا۔ اُس حاملہ خاتون نے آخری سانس لینے سے پہلے اپنے شوہر سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میرے مرنے سےپہلے میرے پیٹ میں جو بچہ ہے، جو ہماری بیٹی ہے، اُسے بچا لو۔
ایمن بھاگم بھاگ اپنی بیوی کو اسپتال لے کر گیا اور ڈاکٹر کی منت سماجت کرنے لگا کہ کسی طرح اُس کی بیوی کے پیٹ میں جو بیٹی ہے، وہ اُس کے خاندان کی آخری نشانی ہے، اُسے بچایا جائے۔ڈاکٹر وں کی کاوش سے ایمن کی بیٹی کو بچا لیا گیا اور ایمن نے اُس کا نام مکہ رکھا۔ مکہ کے بہن اور بھائی، شام اور آدم، جو اسرائیلی حملے میں شہید ہو گئے، اُن کی تاریخ پیدائش بھی وہی تھی جو مکہ کی ہے۔ لیکن وہ معصوم بچے اپنی سالگرہ کے دن اپنی ماں کے ساتھ جاں بحق ہو گئے۔مکہ اب بھی وینٹی لیٹر پر ہے اور ڈاکٹر اُس کی جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ڈاکٹروں کے مطابق مکہ کی حالت تشویش ناک ہے اور طویل دورانیے تک آکسیجن کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ آنے والے وقت میں مکہ کی زندگی میں کچھ مشکلات بھی پیدا ہوں۔ اُس کی کلائی میں موجود پرچی پر لکھا ہے ’’شہید دارین ابو شمالا کی بیٹی‘‘۔ وہ اپنے والد، جو اپنے ہر عزیز ترین رشتے سے محروم ہو چکے ہیں، کی زندگی میں اُمید کی آخری کرن بن کر آئی ہے۔
یہ دل کو رُلا دینے والاواقعہ ہے۔ مکہ کی یہ کہانی سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئی جسے اسرائیل فلسطین میں بند کرنے کی کوشش میں ہے۔ سوشل میڈیا نے سیاست، صحافت، تفریح اور دنیا کے دیگر شعبوں کو جہاں اچھے اور برے انداز میں بدل دیا ہے وہیں اسرائیلی مظالم کے خلاف فلسطینیوں کو ایک نئی آواز فراہم کی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے ایسے ایسے پہلو کھل کر سامنے آ رہے ہیں کہ اسرائیل کی حمایت کرنے والے مغربی ممالک بھی اب محتاط رویہ اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے جہاں اسرائیلی مظالم سے پردہ ہٹ رہا ہے اور یہ بات دنیا کے سامنے کھل کر آ چکی ہے کہ اسرائیل ایمن ابو شمالا کی طرح اُن دیگر خاندانوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے جو اسرائیلی بمباری سے بچنے کے لیے شمالی غزہ چھوڑ کر جنوب کی طرف منتقل ہو رہے ہیں ،وہیں اسرائیل میں اسی میڈیم پر ایک گندا ترین ٹرینڈ دیکھنے میں آیا ہے۔ جہاں فلسطینیوں کی مشکلات کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے۔ اسرائیلی ٹک ٹاکرز مظلوم فلسطینیوں کی حالت زار کا مذاق اڑانے کیلئے طرح طرح کی میمز بنا رہے ہیں۔کچھ ویڈیوز میں بم دھماکوں سے مرنے کی اداکاری کی جا رہی ہے، کچھ ویڈیوز میں دانت کالےکرکے یہ دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسرائیل کی ہیبت سے فلسطینیوں کے تو دانت ہی گر چکے ہیں۔ کچھ ویڈیوز میں مظلوم فلسطینی جو اپنے پیاروں کو کھونے پر آہ وبکاکر رہے ہیں اس کی مزاحیہ انداز میں نقل اتاری گئی ہے۔ کچھ ویڈیوز میں فلسطینیوں کو جانور دکھایا جا رہا ہے۔ زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان ویڈیوز میں وہ ٹک ٹاکرز اپنے بچوں کو بھی شامل کر رہے ہیں یعنی ابھی سے ان کے دل و دماغ میں فلسطینیوں کے لیے نفرت کا بیج بو رہے ہیں۔ یہ بد ترین ویڈیوز اسرائیل میں بہت وائرل ہو رہی ہیں۔
مغربی میڈیا نہ تو اسرائیلی ٹک ٹاکرز کی اس گھٹیا حرکت پر کوئی بات کررہا ہے نہ ہی مکہ جیسے بچوں کی رُلا دینے والی کہانیاں دکھا رہا ہے۔ لیکن اب جب سوشل میڈیا کے ذریعے اسرائیلی بربریت اور فلسطین میں بچوں اور خواتین کے قتلِ عام سے پردہ اُٹھ رہا ہے تو مغربی عوام میں بھی فلسطین کا کیس مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ مغربی میڈیا میں فلسطین کے حق میں بولنے والوں کو پہلے ہی کم جگہ دی جاتی تھی، اب ان کو بالکل ہی نظر انداز کیا جا رہا ہے لیکن یہ لوگ اب سوشل میڈیا پر جس طرح کھل کر فلسطین کے حق کی بات کر رہے ہیں جو کہ حقائق پر مبنی ہیں، مین سٹریم میڈیا انہیں دکھانے اور ان کی بات سننے پر مجبور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ مغربی میڈیا پہلے فلسطین کے حامیوں کو شروع میں ہی اس سوال میں اُلجھا دیتا تھا کہ آپ تو حماس کے حامی ہیں لیکن اب بسیم یوسف جیسے فلسطین کے حامی اس سوال سے پہلے ہی حماس کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے یہ سوال اٹھا دیتے ہیں کہ کیا آپ بھی اسرائیل کے مظالم اور حملوں کی مذمت کرنے کی جرات رکھتے ہیں؟ اور اگر سارا مسئلہ حماس کا ہی ہے تو مغربی کنارے میں، جہاں حماس کا عمل دخل نہیں ہے، رواں سال اب تک 68کے قریب فلسطینی جس میں 38بچے بھی شامل ہیں، کیوں اسرائیلی بربریت کا نشانہ بنے ہیں؟
ہم پاکستانی صحافت کا اکثر عالمی بالخصوص مغربی صحافت سے موازنہ کرتے ہیں۔ لیکن حماس اسرائیل تنازع پر مغربی میڈیا پر ہونے والی یکطرفہ رپورٹنگ اور جو سوشل میڈیا پر اس جنگ کے حوالے سے اصل حقائق سامنے آ رہے ہیں، اُس سب نے مغربی میڈیا کے جانبدارانہ چہرے سے پردہ اُٹھا دیا ہے۔ جس کا ثبوت اب مغربی ممالک کے بڑے بڑے شہروں میں فلسطینیوں کے حق میں نکلنے والی وہ ریلیاں ہیں جن میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ مقامی لوگوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہوتی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ مسلم اُمہ اور انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کو فلسطینیوں کے دفاع میں مضبوطی سے کھڑا ہونا پڑے گا۔ بصورت دیگر مکہ جیسے کرشمے تو روز روز نہیں ہوں گے لیکن اُس کے خاندان کی طرح مزید مظلوم فلسطینی خاندان اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنتے رہیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)