• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری جب آئین کے مطابق عام انتخابات کی بات کرتے ہیں تو مسلم لیگ ن کو ناگوار گزرتاہے، ماتھے پر شکن اور پسینہ آجاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جناب بلاول بھٹو زرداری تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک جیسا آزادانہ سیاسی ماحول اور سب کیلئے لیول پلینگ فیلڈ کی بات کرتے ہیں تاکہ عام انتخابات کی ساکھ قائم ہو، جو ملک کی بہترین ساکھ کیلئے ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ انتخابات میں شکست کے بعد سیاسی پارٹیاں دھاندلی کی بات کرتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی جیت کی شفافیت کو تو ان حضرات نے بے نقاب کیا جو اس کے سہولت کار تھے جیسا کہ مرحوم حمید گل کی طرف سے آئی جے آئی کی تشکیل۔ 1997 کے انتخابات کی اصلیت کا بھی ان قوتوں نے بھانڈا پھوڑا جو میاں نواز شریف کو اقتدار میں لائی تھیں۔ 2013کے انتخابات کے حوالے سے باقی کیا راز ،کون سا راز ہے جو افشا نہیں ہوا؟ معاف کیجئے گا 2013کے انتخابات کے دوران جناب آصف علی زرداری صدر مملکت ضرور تھے مگر پاکستان پیپلزپارٹی کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے زیادہ طاقتور تھے۔ پہلے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے کو اغوا کیا گیا '،دوسرے وزیراعظم راجا پرویز اشرف کو انتخابی مہم چلانے سے روک دیا گیا تھا۔ رہی بات 2018 کے انتخابات کی تو ان انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں تھی صرف لاڈلے عمران خان کیلئےمیدان خالی رکھا گیا تھا، عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا جس کے بعد میاں صاحب حسب معمول ملک چھوڑ کر چلے گئے ۔قوم اس وقت بھی حیران تھی جب ایک سزا یافتہ شخص کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی اور قوم اب بھی حیران ہے کہ ایک سزا یافتہ شخص کی پاکستان واپسی پر قانون حرکت میں نہیں آیا اور انصاف کے پلڑے بھی جھولتے نظر نہ آئے۔ ان حالات میں یہ سوال ضرور اٹھیں گے کہ قانون کا پیمانہ جی ٹی روڈ کیلئے الگ اور باقی ملک کیلئے مختلف کیوں ہے ؟ چیئرمین پیپلزپارٹی جناب بلاول بھٹو زرداری کا بیانیہ بالکل واضع ہے کہ آزادانہ ،منصفانہ اورغیر جانبدارانہ انتخابات کی ساکھ اس وقت قائم ہو سکتی ہے جب تمام سیاسی پارٹیوں کیلئے لیول پلینگ فیلڈ ہو، یہ عوام کا اختیار ہے کہ کس پارٹی کو مینڈیٹ دیتے ہیں عوام کی عدالت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہوگا۔ کس قدر عجب منظر ہے کہ خود کو عوام میں مقبول ہونے کے دعویداروں کی پیشانی کا رنگ اس بات پر تبدیل ہوجاتا ہے ماتھے پر شکن اور پسینہ آتا ہے، جب ہم جمہوری عمل میں لیول پلینگ فیلڈ کی بات کرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ صرف ایک صوبہ سندھ میں سرکاری ملازمین کے تبادلوں کا طوفان ہے جہاں ایک سیاسی جماعت سے وابستہ گورنر ہے 'خیبر پختونخوا میں جے یو آئی ف کا نمائندہ گورنر ہے 'پنجاب میں گویا مسلم لیگ کی حکومت برقرار ہے اور وفاق میں بھی یہ ہی صورتحال ہے تو لیول پلینگ فیلڈ کی بات تو ہوگی۔ جب مسلم لیگ ن کی طرف سے لیول پلینگ فیلڈ پر ناراضی کا پہلو سامنے آتا ہے تو ابن انشا کی شاعری یاد آتی ہےکہ

کہا ہم اونٹ پر بیٹھیں

کہا تم اونٹ پر بیٹھو

کہا کوہان کا ڈر ہے

کہا کوہان تو ہوگا

کہا ہم چین کو جائیں

کہا تم چین کو جاؤ

کہا جاپان کا ڈر ہے

کہا جاپان تو ہوگا

مورکھ کو کون سمجھائے گا کہ انتخابات میں عوام کی عدالت سجتی ہے لاکھوں عوام کی عدالت میں اپنے آپ کو پیش کرنا پڑتا ہے تلخ اور شیریں صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کوئی شک نہیں کہ عوام کی عدالت بھی ایک پل صراط ہی ہے اور عوام کی عدالت سے سند حاصل کرکے ہی مقدس پارلیمنٹ کی نشست ملتی ہے۔جی ہاں ہاں دلپذیر ہوائیں پیغام دے رہی ہیں کہ جناب بلاول بھٹو زرداری مستقبل کے وزیراعظم ہیں۔ ان دلپذیر ہواوں کا رخ قانون کو سوالیہ نشان بنانے اور دولت کی چمک سے مڑنے والا نہیں ہے۔ معاف کیجئے گا رائے ونڈ کے پرکشش محل کی چمک اپنی جگہ مگر برسر روزگار سرکاری ملازمین کی برطرفیوں کی بد دعائیں رائے ونڈ محل کو بار بار ویران کرتی رہی ہیں۔ بلاول ہاوس کل بھی جمہوریت پسندوں کیلئے حوصلہ اور ڈھارس تھا آج بھی ہے۔ یہ ہم ہی نہیں کہتے حالات اور خلق خدا کہہ رہی ہے کہ لاڈلا اول تھوڑی سی سرزنش کے بعد لاڈلے دوئم کی جگہ لینے کیلئے واپس آیا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف اپنے بھائی کی حکومت میں وطن واپس کیوں نہیں آیا ،اس کا مطلب یہ ہے نواز شریف کو اپنے بھائی پر بھی اعتبار نہیں تھا۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ نواز شریف لندن میں پاکستان کی آمد سے قبل اپنا بیانیہ دریابرد کر چکا تھا۔ ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ پیپلزپارٹی کے جیالوں نے جمہوریت کی خاطر اپنے خون سے چراغ روشن کیے ہیں جس کی وجہ سے گلیاں سنسان نہیں ہونگی کہ مرزا یار کو دندناتے پھرنے کا موقع ملے۔ سوال یہ ہے کہ شفاف انتخابات کیلئے لیول پلینگ فیلڈ سے سیاسی یتیم کیوں گھبراہٹ کے شکار ہیں۔(صاحب تحریر پاکستان پیپلزپارٹی کےسیکریٹری اطلاعات ہیں)

تازہ ترین