• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھانے کا ادارہ قائم کرنا چاہتی ہوں

بات چیت: وحید زہیرؔ، کوئٹہ

عکّاسی: رابرٹ جیمس

رنگوں سے مفر مایوسی کا دوسرا نام ہے۔ ایک حقیقی فن کار کبھی بھی رنگوں کو آنکھوں اور احساسات سے جُدا نہیں ہونے دیتا اور بے شمار خوبیوں کی مالک سعدیہ راٹھور کا شمار بھی رنگوں سے محبّت کرنے والے آرٹسٹس میں ہوتا ہے۔ 

اینامولکا ایوارڈ2023ءجیتنے والی سعدیہ راٹھور، بلوچستان کی ایک اُبھرتی ہوئی باصلاحیت مصوّرہ ہیں۔ وہ فنونِ لطیفہ کے ذریعے با مقصد زندگی کا پرچار کر رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ہماری ان سے خصوصی گفتگو ہوئی، جو نذرِ قارئین ہے۔

س: اپنے خاندانی پس منظر اور ابتدائی حالاتِ زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں۔

ج: میرے دادا، گلزار حسین راٹھور اور ان کے خاندان کے دیگر افراد نے قیامِ پاکستان سے قبل سری نگر سے گجرات نقل مکانی کی۔ میرے آبائو اجداد کپڑوں کی تجارت سے وابستہ تھے۔ دادا نے بلوچستان آمد کے بعد انگریزوں کے ساتھ ٹھیکے دار کے طور پر کام شروع کیا اور کول پور میں رہایش اختیار کی۔ میرے والد، طارق حسین راٹھور ٹھیکے دار ہونے کے علاوہ ایک سماجی کارکُن بھی تھے۔ وہ مختلف اخبارات میں شایع ہونے والے اپنے مراسلات اور مضامین کے ذریعے مچھ اور کول پُور کے مسائل اُجاگر کیا کرتے تھے۔ 

انہوں نے اُس وقت کے صوبائی وزیرِ تعلیم، پری گُل آغا کی وساطت سے کول پُور میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ مڈل اور ہائی اسکولز قائم کروائے۔ علاوہ ازیں، سابق گورنر بلوچستان، شہید نوّاب غوث بخش رئیسانی بھی اُن کے گہرے دوست تھے۔ ہم کل پانچ بہن بھائی ہیں۔ ایک بھائی اور چار بہنیں۔ دو بہنیں بیرونِ ملک مُقیم ہیں، جب کہ بھائی الیکشن کمیشن آف پاکستان سے وابستہ ہیں۔ 

مَیں 1986ء میں پیدا ہوئی۔ پانچویں تک تعلیم کول پُور ہی میں حاصل کی اور پھر ریلوے گرلز ہائی اسکول، کوئٹہ سے میٹرک کیا۔ بعد ازاں، گورنمنٹ گرلز کالج، کوئٹہ سے ایف اے اور بلوچستان یونی ورسٹی سے بی ایف اے (بیچلرز ان فائن آرٹس) کرنے کے بعد لاہور کےنیشنل کالج آف آرٹس(این سی اے) میں داخلہ لیااور وہیں سے میرے کام میںنکھار آیا۔

س: فائن آرٹس کی جانب کیسے راغب ہوئیں؟

ج: مُجھے بچپن ہی سے رنگوں سے کھیلنا پسند ہے۔ جب مَیں چھوٹی تھی، تو والد کاغذ پر مختلف خاکے بنا کر مُجھے رنگ بھرنے کے لیے دے دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مَیں بلوچی پراندے اور جیولری وغیرہ بھی ڈیزائن کر کے دوسروں کو تحفتاً دیتی رہتی تھی۔ نیز، دُلہنوں کا میک اپ بھی کرتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب میری تخلیقی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہونے لگا اورقُرب و جوار میں ایک ڈیزائنر کے طور پر شُہرت پھیلنے لگی، تو مَیں نے فائن آرٹس کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔

س: بلوچستان جیسے پس ماندہ صوبے سے تعلق کی وجہ سے این سی اے میں مسائل کا سامنا تو کرنا پڑا ہو گا۔ نیز، کیا داخلہ آسانی سے مل گیا تھا؟

ج: مسائل تو ہر جگہ ہی ہوتے ہیں اور ویسے بھی ہمارے معاشرے میں خواتین کو کچھ زیادہ ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہر کیف، چُوں کہ والد نے مُجھے این سی اے میں غیر سنجیدہ لڑکیوں سے دُور رہنے کا مشورہ دیا تھا، لہٰذا مَیں نے کالج کے ہاسٹل کی بہ جائے قریب ہی واقع ایک نسبتاً معیاری ہاسٹل میں رہایش کو ترجیح دی۔ مَیں کلاسز اٹینڈ کرنے کے بعد فوراً ہاسٹل واپس جا کر اپنے کام میں مگن ہو جاتی۔ 

دراصل، مُجھے اپنی معاشرتی اقدار کا پاس تھا۔ این سی اے ہی میں مُجھے پتا چلا کہ مَیں جو کام شوق سے کرتی ہوں، اُسے ’’مِنی ایچر‘‘ کہتے ہیں۔ اب جہاں تک کالج میں داخلے کی بات ہے، تو ایڈمیشن سے قبل مَیں نے لاہور میں فیض احمد فیض ؔکی صاحب زادی، سلیمہ ہاشمی سے ملاقات کی تھی۔

مَیں نے اُنہیں بلوچستان کی روایتی قالین بافی سے متعلق اپنی مختلف پینٹنگز دکھائیں، تو اُنہیں پسند آئیں۔ اس کے علاوہ مِنی ایچر کی ایک ٹیچر نے بھی میرے کام کو خُوب سراہا اور پھرگریجویشن میں اچّھے مارکس کی وجہ سے بھی این سی اے میں داخلے کی راہ ہم وار ہو گئی۔

س: آپ نے قالین بافی کی پینٹنگز ہی کا کیوں انتخاب کیا؟

ج: بی ایف اے میں میرا تھیسز چائلڈ لیبر سے متعلق تھا اور اس دوران قالین بافی کی صنعت سے وابستہ بچّے میرا خاص موضوع تھے۔ نیز، مَیں نے ان بچّوں سمیت دیگر اسٹریٹ چلڈرن کو ڈیزائننگ کی تربیت بھی فراہم کی۔ اسی بنا پر مَیں نے قالین بافی سے متعلق پینٹنگز کا انتخاب کیا۔

س: بلوچستان اور دیگر صوبوں کی دست کاری میں کیا فرق ہے؟

ج: بلوچستان کی روایتی قالین بافی اور کشیدہ کاری میں رنگوں کا استعمال بڑی عمدگی سےکیا جاتا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں معیاری ووکیشنل انسٹی ٹیوٹس اور انڈسٹریز نہ ہونے کے سبب مقامی ڈیزائنرز کو تعلیم و تربیت اور کام کے مواقع دست یاب نہیں۔

واضح رہے کہ قالین بافی از خود ایک بڑی صنعت ہے اور اسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں ڈیزائننگ کے حوالے سے کام کی کافی گنجایش ہے اور پھر ویسے بھی بلوچستان کی مقامی خواتین کے پاس کافی وقت ہوتا ہے اور ہنر بھی ہے۔ اگر انہیں تربیت فراہم کی جائے، تو وہ گھر بیٹھے باعزّت روزگار کما سکتی ہیں۔

نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے 

س: کیریئر کے ضمن میں کن شخصیات نے آپ کی رہ نُمائی کی؟

ج: پروفیسر کلیم خان، اکرم دوست بلوچ، ایّوب صاحب، عمران اور حمید بلوچ نے میری خاصی حوصلہ افزائی اور رہ نُمائی کی۔

س: کیا آپ نے اپنے فن پاروں کی نمایش بھی کی ہے؟

ج: جی ہاں۔ اب تک کوئٹہ، لاہور، کراچی اور گوادر کے علاوہ بیرونِ مُلک بھی میرے فن پاروں کی نمائشیں منعقد ہو چُکی ہیں۔

س: کسی بین الاقوامی مقابلے میں بھی حصّہ لیا؟

ج: مَیں نے انگلینڈ میں منعقدہ ڈیزائننگ کے ایک مقابلے میں پاکستان کی نمایندگی کی ہے۔ اس مقابلے میں 16ممالک کے کم و بیش150 ڈیزائنرز شریک تھے۔ اس کے علاوہ اینا مولکا ایوارڈ 2023ء اپنے نام کر چُکی ہوں۔

س: کبھی ڈیزائننگ سے اُکتاہٹ محسوس ہوئی؟

ج: میری اپنے والد سے گہری دوستی تھی اور جب اُن کا انتقال ہوا، تو مُجھے اپنی زندگی بوجھ محسوس ہونے لگی۔ اُن کی دیرینہ خواہش تھی کہ ہم سب بہن بھائی اپنے اپنے شعبوں میں نام پیدا کریں اور پاکستان بالخصوص بلوچستان کے عوام کی خدمت کریں۔ 

والد سے گہری اُنسیت کے سبب اُن کے انتقال کے بعد مَیں یاسیت کا شکار ہو گئی، مگر پھر اُن کی اس خواہش ہی نے مُجھے کوئی معرکہ سر انجام دینے کا حوصلہ عطا کیا اور مَیں ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ آئی۔ اب مَیں جب بھی کام کرتی ہوں،تو مُجھے اپنے آس پاس اُن کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اب بھی میری مدد کر رہے ہیں۔

س: ایک آرٹسٹ کو اپنے فن کے بھرپور اظہار کے لیے کس قسم کا ماحول درکار ہوتا ہے؟

ج: آزادانہ ماحول ہی میں ایک فن کار کی تخلیقی صلاحیتیں اُبھر کر سامنے آتی ہیں۔

س: آپ خود کو دوسروں سے مختلف کب خیال کرتی ہیں؟

ج: جب مَیں کوئی منفرد کام کرتی ہوں۔

س: اپنے فن پاروں کی نمائش کے دوران کبھی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا؟

ج: ایک خاتون ہونے کے ناتے چھوٹی موٹی مشکلات تو عموماً پیش آتی ہی رہتی ہیں۔ البتہ جب مَیں انامولکا ایوارڈ لینے جا رہی تھی، تو اُس روز پورے مُلک میں اچانک موبائل فون سروس بند ہو گئی اور رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے خاصی پریشانی اُٹھانا پڑی۔

س: اب تک کتنے ممالک کا دورہ کر چُکی ہیں؟

ج: مَیں یورپ کے بیش تر ممالک کا سفر کر چُکی ہوں۔ اس دوران مَیں نے کئی نام وَر یورپی آرٹسٹس سے ملاقات کی اور اُن کے کام کا جائزہ لیا۔

س: آپ کا پسندیدہ رنگ کون سا ہے؟

ج: مُجھے سیاہ رنگ سمیت تمام گہرے رنگ پسند ہیں۔ ویسے ہر رنگ کی کوئی نہ کوئی خُوبی ضرور ہوتی ہے۔ بعض رنگ خوش گوار ماحول کا احساس دلاتے ہیں، تو بعض ناخوش گواریوں کی عکّاسی کرتے ہیں۔ البتہ صرف بالغ النّظر افراد ہی رنگوں کی زبان سمجھ سکتے ہیں۔

س: مستقبل کے کیا منصوبے ہیں؟

ج: مَیں ایک ایسا ادارہ قائم کرنا چاہتی ہوں کہ جہاں بچّوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جا سکے اور وہ بچّے بڑے ہو کر نِت نئے ڈیزائنز تخلیق کریں۔

س: آپ رفاہی خدمات بھی انجام دیتی ہیں؟

ج: جی بالکل۔ انسانیت کی خدمت کا جذبہ مُجھے وراثت میں ملا ہے۔ مَیں ریڈ کریسنٹ کے رضاکاروں میں شامل ہوں اور بچّوں کی تعلیم و تربیت اور شہر کی خُوب صورتی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتی ہوں۔ نیز، معاشرے کی پس ماندگی کے خاتمے کے لیے دوستوں کے ساتھ مل کر فلمز بھی بنا رہی ہوں۔

س: آپ بہ یک وقت اتنے سارے کام کیسے کر لیتی ہیں؟

ج: فی الوقت مُجھ پر کوئی گھریلو ذمّے داری نہیں ہے اور پھر بہن بھائی اور دوست احباب بھی مُجھے کافی سپورٹ کرتے ہیں، تو ان کی مدد سے یہ سارے کام کر لیتی ہوں۔