• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری آنکھیں بڑی مصیبت میں گرفتار ہیں۔یوں تو دو آنکھیں ایک ہی منظر دیکھتی ہیں،لیکن ہماری آنکھیں دوجدا جدا منظر دیکھ رہی ہیں اور وہ بھی اس خوف سے کہیں ہمارا سر درمیان سے شق نہ ہو جائے۔ ایک آنکھ نے دیکھا کہ چار پولیس والوں کے سر قلم کر کے ان سے فُٹ بال کھیلی جارہی ہے۔ دوسری آنکھ نے دیکھا کہ اسکاٹ لینڈ میں تین برس کا ہنستا مسکراتا میکائیل اپنے کمرے سے لاپتہ ہے اور اس کی تلاش میں سیکڑوں افراد اپنے گھروں سے نکل آئے ہیں اور شانے سے شانہ ملا کر علاقے کے چپّے چپّے کو ٹٹول رہے ہیں کہ شاید کہیں اس بچّے کی کوئی نشانی ہی مل جائے۔ وہ سارے سفید فام تھے، بچہ ایشیائی تھا۔ اس کی ماں نے بتایا کہ اس نے رات بچے کو اس کے بستر میں سلایا۔ صبح اٹھ کر دیکھا تو بچہ غائب تھا۔ پولیس کو خبر کی گئی۔بچے کی گمشدگی کا اعلان ہونے کی دیر تھی کہ علاقے کی ساری آبادی سخت سردی کے باوجود اپنے گھروں سے نکل آئی۔ جن خواتین کے بچے چھوٹے تھے وہ بچّہ گاڑیوں سمیت آگئیں۔ جو بوڑھے چھڑی ٹیک کر چلتے تھے وہ اسی چھڑی سے علاقے کی جھاڑیوں کو کریدنے لگے۔ فضا میں ہیلی کاپٹر اڑنے لگے۔ گرجے میں دعائیں مانگی جانے لگیں کہ ننھا میکائیل مل جائے۔ یہ خبر پورے برطانیہ کے ٹیلی وژن پر پہلی خبر بن گئی، اخبار اور ریڈیو لمحے لمحے کی خبریں دینے لگے۔ پڑوسی حیران تھے کہ ہنستے بستے گھر کے تین سال کے ذہین بچے کو کیا زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ رات ہوئی تو لوگ واپس اپنے گھروں میں گئے لیکن دن نکلتے ہی اپنے اونی کپڑوں میں لپٹے لپٹائے وہی لوگ منہ اور ناک سے بھاپ اڑاتے ہوئے دوبارہ نکل کھڑے ہوئے۔ ڈر یہ تھا کہ بچہ اتنی سردی میں کہیں ٹھٹھر کر مر نہ جائے۔ دوسرے دن بھی لوگ زمین پر نظریں گاڑے دیکھتے رہے کہ ننھے میکائیل کی کوئی نشانی ہی مل جائے۔ اس دوران پولیس نے عوام سے ایک درخواست کی۔ اس نے ایک ٹیلی فون نمبر دے کر لوگوں سے کہا کہ انہیں اس واردات کے بارے میں کوئی علم ہو تو اس نمبر پر اطلاع کریں۔ یہ عوام تو ٹھہرے دنیا زمانے سے نرالے۔ ذرا دیر میں ٹیلی فون کالوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہر وقت اطراف پر نگاہ رکھنے والی اس قوم نے پولیس کو کارآمد اطلاعات دینی شروع کیں۔ دن گزرا، رات آدھی ہو گئی۔ کچھ دیر بعد ٹی وی ریڈیو اور اخبارات کے نامہ نگاروں کو سوتے سے جگایا گیااور پریس کانفرنس کے لئے بلا لیا گیا۔ پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ نصف شب سے ذرا پہلے میکائیل کے گھر سے بیس میل دور ایک بنگلے کے پچھواڑے جنگل میں زمین کھود کر ایک تین سال کے بچّے کی لاش نکالی گئی ہے۔ (پولیس نے میکائیل کا نام نہیں لیا)۔ جیسے ہی یہ اعلان ہوا، نامہ نگاروں کی آہ سُنی گئی۔ پھر ترجمان نے بتایا کہ تینتیس برس کی ایک عورت کو تحویل میں لے لیا گیا ہے۔(پولیس نے میکائیل کی ماں کا نام نہیں لیا۔ یہ یہاں کی پولیس کا اسلوب ہے)۔ صبح ہوتے ہی علاقے کے لوگ جوق در جوق میکائیل کے گھر پہ پہنچنے لگے اور اس کے دروازے کے سامنے پھول، کھلونے، کارڈ اور بچوں کو خوش کرنے والے غبّارے رکھنے لگے۔ ایک بڑے سے غبارے پر لکھا تھا۔’’ننھا فرشتہ‘‘۔ایک بچے نے اپنے ہاتھ سے کارڈ بنایا اور اس پر لکھا’’میکائیل، یہ بھالو کا بچّہ لے جاؤ، یہ عرش پر تمہارے ساتھ رہے گا‘‘۔ سارا ملک، پورا معاشرہ اداس ہو گیا۔اعلان ہوا کہ شام کو مقامی گرجا گھر میں بچے کی یاد منائی جائے گی۔ اُس شام اتنے زیادہ لوگ آئے اور جگہ اتنی تنگ تھی کہ لوگوں نے پوری تقریب کھڑے ہو کر منائی۔ ادھر کسی کو شرارت سوجھی۔ ہر معاشرے میں شرپسند ضرور ہوتے ہیں، کسی نے ٹوئٹر پر اس بچے کی ہلاکت کے بارے میں نسل پرستانہ فقرہ لکھا۔ پورا معاشرہ جس غم سے افسردہ تھا اس کے بارے میں خباثت کے رویّے کی خبر ملتے ہی پولیس حرکت میں آگئی اور چند گھنٹوں کے اندر دو مَردوں کو دھر لیا۔سرِدست ان کو ایک طرف ڈال دیا گیا کہ بعد میں دیکھیں گے کیونکہ پولیس اس وقت کچھ یوں چھان بین کر رہی تھی جیسے ملک کا کوئی بڑا خسارہ ہو گیا ہو۔ اسکاٹ لینڈ کا قانون یہ ہے کہ پولیس کو صرف چوبیس گھنٹے کی مہلت ہوتی ہے یا تو وہ فرد جرم عائد کرنے کے لئے ملزم کو عدالت میں پیش کرے ورنہ اس کو چھوڑے۔ اگلے روز کمسن میکائیل کی ماں عدالت میں پیش کردی گئی۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے اپنے تین سال کے بیٹے کو قتل کیا ہے۔ یہ ساری کارروائی بند کمرے میں کی گئی۔ آئندہ سماعت بھی بند کمرے میں ہو گی۔ دنیا کو ساری تفصیل اس وقت تک نہیں بتائی جائے گی جب تک جرم ثابت نہ ہوجائے۔ اس پر ساری قوم صبر کر کے بیٹھ رہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ایسے جرم کو بھول جائے جس نے ایک روز ہر کنبے اور ہر گھرانے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
اس معاملے میں یہ لوگ عجیب ہیں۔ پورے سات سال ہونے کو ہیں جب ان کی تین برس کی ایک بچّی میڈیلین(مے ڈے لین) لاپتہ ہوئی تھی۔ آج تک آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کہیں سے اس کے مل جانے کی خبر آئے گی۔ ہوا یہ کہ بچّی کے والدین چھٹیاں منانے پرتگال گئے اور ایک ہوٹل میں قیام کیا۔ ایک رات وہ بچّی کو اپنے کمرے میں سُلا کر کھانا کھانے چلے گئے۔ اس دوران علاقے میں کچھ اٹھائی گیرے سیاحوں کا مال لوٹ رہے تھے۔ ان میں سے ایک اس کمرے میں داخل ہوا جہاں میڈیلین سو رہی تھی۔ خدا جانے اس چور کو کیا ہوا۔ اس نے سارا مال اسباب چھوڑا اور بچّی کو اٹھا کر لے گیا۔ ذرا ہی دیر بعد اس کے والدین واپس کمرے میں آئے تو دیکھا کہ بچّی کا بستر خالی ہے۔ اگلے ہی لمحے اس کی تلاش شروع ہوگئی اور ریڈیو اور ٹی وی پر اعلانات ہونے لگے۔ دیکھتے دیکھتے برطانیہ خبر پہنچ گئی اور ملک میں کہرام مچ گیا کہ ایک برطانوی بچی پرتگال میں لاپتہ ہوگئی ہے۔پوری قوم کو جیسے کسی نے جھنجھوڑ دیا۔ اس کے بعد ہر طرف میڈیلین کی ایسی ڈھنڈیا شروع ہوئی کہ اخبار ٹیلی گراف نے لکھا کہ جدید تاریخ میں کسی لاپتہ فرد کی گمشدگی کی اس سے زیادہ خبریں نہیں دی گئیں۔ اب سوچئے کہ کہاں 2007ء اور کہاں آج کا دن۔ پورا نظام آج بھی لڑکی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ہر سال بارہ مئی کو اس کی سالگرہ کے موقع پر کمپیوٹر اس کی تصویر جاری کرتا ہے کہ اب وہ ایسی نظر آتی ہوگی، اب وہ اتنی بڑی ہو گئی ہو گی۔ برطانوی پولیس نے اُن تین چوروں کا پتہ چلا لیا ہے جو واردات کی شام اس علاقے کے چکر کاٹ رہے تھے جس علاقے سے لڑکی کو اٹھایا گیا تھا۔ پولیس کو یہ بھی معلوم ہے کہ واردات کے وقت ان تینوں نے ایک دوسرے کو بار بار ٹیلی فون کیا تھا۔ اب برطانوی پولیس پرتگالی پولیس سے درخواست کر رہی ہے کہ تینوں چوروں کو گرفتار کرنے کی اجازت دے۔ جواب یہ ملا ہے کہ پرتگالی قانون کے مطابق اس میں دو ماہ لگیں گے۔ گزرتے وقت نے جیسے دَم سادھ لیا ہے۔ نگاہیں افق پر جمی ہیں کہ ڈوبتے سورج کو پھلانگ کر اچانک ایک لڑکی کسی سپاہی کی انگلی تھامے ہماری سمت آتی نظر آئے گی۔ امید بھی عجب شے ہے کہ حوصلوں کو تھامے رکھتی ہے۔ دنیا میں خوش گمانی نہ ہوتی تو ہم کبھی کے مر گئے ہوتے۔
یہ ہے ایک تصویر جسے ہماری ایک آنکھ خود بھی حیرت کی تصویر بنی دیکھ رہی ہے اور ہماری دوسری ستم رسیدہ آنکھ نے یہ تصویر دیکھی ہے کہ کچھ نوجوانوں نے ارضِ پاک کے چار سپاہیوں کے گلے کاٹے ہیں اور ان کے سروں سے فٹ بال کھیل رہے ہیں۔ اس کھیل میں ان کے جوتے اور موزے خون آلود ہو رہے ہیں البتہ شلوار کے پائنچے صاف ہیں۔ دو آنکھیں، دو منظر۔ہمارا سر بیچ سے شق ہو جائے تو تعجب نہ ہو۔
تازہ ترین