مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) کے انتخابی اتحاد کے قیام نے اس گہما گہمی میں اضافہ کیا جو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انعقاد کے لئے تاریخ کے اعلان کے بعد سے نظر آنی شروع ہوئی ہے۔ مذکورہ فیصلہ منگل کے روز متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں آنے والے وفد کی قائد ن لیگ اور نواز شریف اور پارٹی صدر شہباز شریف سے ملاقات کے بعد کیا گیا۔ متحدہ کے وفد میں فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال شامل تھے جبکہ ماڈل ٹائون لاہور میں ہونے والی اس ملاقات میں ن لیگ کی چیف آرگنائزر مریم نواز سمیت کئی اہم پارٹی لیڈر شامل تھے طے کیا گیا کہ دونوں جماعتوں کے تین تین ارکان پر مشتمل کمیٹی ایک چارٹر تیار کرے گی۔ میاں نواز شریف نے سندھ کی صورتحال، مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر متحدہ کے موقف کی تائید کی اور اس معاملے پر مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کیا۔ ن لیگ نے سندھ میں جی ڈی اے، جے یو آئی سمیت ان تمام پارٹیوں سے اتحاد کا فیصلہ کیا جو پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں ہیں۔ اعلامیہ کے بموجب دونوں جماعتوں نے اتفاق کیا کہ پاکستانی عوام کو موجودہ مسائل سے نکالنے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جائے۔ مسلم (ن) کے سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے فاروق ستار اور مصطفی کمال کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دی۔ بتایا گیا کہ جب پی ڈی ایم کی حکومت بنی تھی اس کیلئے بھی ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) نے مذاکرات کئے اور چارٹر پر دستخط کئے تھے۔ یہ بھی طے ہوا تھا کہ دونوں جماعتیں آئندہ انتخابات میں مل کر حصہ لیں گی۔ منگل ہی کے روز پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین و سابق صدر آصف علی زرداری نے گھوٹکی کے علاقے خان گڑھ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں مخالفین کو خوش آمدید کہتا ہوں، سب اپنی سیاست کریں ، ہماری اپنی سیاست اور فلاسفی ہے۔ پی پی پی کے رہنما کے الفاظ جمہوری جذبے اور رویہ کا اظہار ہیں جس میں مخا لفین کی فکر سے اختلاف کے باوجود اس کا احترام کیا جاتا ہے، پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم کی جو حکومت بنی، اس میں پیپلز پارٹی بھی شامل تھی، مگر اب بدلے ہوئے حالات میں نئے الیکشن کا سامنا ہے تو پارٹیوں کو اپنی اپنی ترجیحات کے لحاظ سے نئی صف بندیاں کرنی ہیں جن کا سلسلہ شروع بھی ہوگیا ہے۔ الیکشن معتبر بھی اسی وقت ہوتا ہے جب اس میں تمام سیاسی پارٹیاں آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حصہ لیں۔ اس باب میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن الیکشن میں پی ٹی آئی کی شمولیت کی ضرورت اجاگر کرچکے ہیں۔ اب اور ممتاز سیاستدان اعتزاز احسن نے یہ بات کہی ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی شمولیت کے بغیر الیکشن کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ ادھر تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن نے ’’دی نیوز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کسی ریاستی ادارے سے لڑائی نہیں کرے گی۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہر خان کے اس بیان سے پارٹی کی دوری ظاہر کی کہ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی سویلین بالادستی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کے ساتھ آئے گی۔ وضاحت سے ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی آئین قانون ، اداروں کے احترام کے ساتھ انتخابی میدان میں آنا چاہتی ہے۔ یہ بات بہرطور ملحوظ رکھی جانی چاہئے کہ شفاف الیکشن جمہوری نظام کے لیے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے معاشرے میں ترقی آتی ہے۔ کوشش کی جانی چاہئےکہ 8فروری کا الیکشن ہر طرح کے شکوک سے پاک ہو۔ تاکہ جمہوری اقدار بلند ہوں، معاشرہ ترقی کرے اور ملک سیاسی، معاشی و دیگر میدانوں میں آگے بڑھتا نظر آئے۔