عام انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے لیکن سیاسی اُفق پر غیر یقینی کے سیاہ بادل دراز ہیں ۔ جہاں یہ کہا جارہاہے کہ عمران خان کی راہوں پر کانٹے بچھے ہیں تووہاں یہی راہیں میاں نوازشریف کیلئےبھی گلزارقرارنہیں دی جارہیں ۔یہ اگر مگر سزائوں سے متعلق ہے وگرنہ جن کے متعلق بقول غالب تاثریہ ہے۔
نیند اسکی ہے ،دماغ اس کا ہے،راتیں اسکی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں
اُن کے متعلق تو کہا یہ جارہاہے کہ وہ انہیں لاکر جس نوع کی پذیرائی سے ہمکنارکرانے میں معائون تھے تو بھلا کیونکراب رنگ میں بھنگ ڈالیں گے،اس دوران اس کج فہم کا خیال مگر یہ ہے کہ پھر بھی اقتدارکے سنگھاسن پر جو بھی پَر پھیلائیں گے،وہ خاطرِپروازکی خاطرپریشاںہی رہیں گے۔ طے ہوچکاکہ آئندہ عام انتخابات 8؍ فروری 2024ء کو ہونگے،اس حوالے سے بعض حلقوں کا کہنایہ ہے کہ دونوں سرکردہ رہنماؤںکے حوالے سے گومگواس لئے ہے کہ اُن کیلئے ضروری ہے کہ وہ عدالتوں سے اپنا نام کلیئر کرائیں تاکہ الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ہو سکیں۔ عمران خان کو توشہ خانہ کیس اورنواز شریف کو ایوین فیلڈ اور العزیزیہ کیس میں بریت درکار ہے ،میاں صاحب کا اس کے ساتھ ہی پنامہ کیس میں تاحیات نا اہلی کا معاملہ بھی طے ہونا ہے۔ نون لیگ کی نظریں الیکشن ایکٹ 2017 پر ہیں، مذکورہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہ ہوگی۔اسی تناظر میں ن لیگ کہہ رہی ہے کہ میاں صاحب اپنی نااہلی کی پانچ سالہ مدت پوری کر چکے ہیں۔احسن بھون صاحب کی سربراہی میں پاکستان بار کونسل کی پٹیشن بھی میاں صاحب کیلئے حوصلہ افزاقراردی جارہی ہے جس میں ارکان پارلیمنٹ کی تاحیات نااہلی کو چیلنج کیا گیا ہے۔
یہ آج کا واقعہ نہیں کہ سیاسی منظرنامہ ابہام کی چادر اُوڑھےہوئےہے بلکہ یہ سلسلہ قیامِ پاکستان تا امروز درازہے۔ 76برس بعد بھی وطن عزیز میں جمہوریت اپنی روح کے مطابق نافذ نہ ہو سکی، اسلئے کسی بھی حکومت یا انتخابات سے متعلق کبھی بھی یقین سے یہ نہیں کہا جا سکا کہ اس میںاگرمگر نہیں ہوگی۔ 11ستمبر 1948کو بانی پاکستان کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنا دیے گئے، یہ منصب چونکہ طاقت کا اصل منبع تھا اس لیے 16اکتوبر 1951کو وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے فوری بعد خواجہ ناظم الدین کو ہٹاکر وزیراعظم اور بیورو کریٹ ملک غلام محمد گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہو گئے۔اپریل 1953میں گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرکے محمد علی بوگرہ کو وزیراعظم مقرر کر دیا۔ محمد علی بوگرہ قانون ساز اسمبلی کے ذریعے 1935ایکٹ میں ترمیم کرنا چاہتے تھے جس کے ذریعے گورنر جنرل آئے روز حکومتوں کو برطرف کرنے پر کمربستہ تھے۔ (دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ ایکٹ انگریز نے بنایا لیکن اُس نے کبھی اسے برطرفی کیلئے استعمال نہیں کیا) خیر ایک جمہوری طرزِ حکمرانی کے خوف سے اعزازی میجر جنرل اور وزیر دفاع اسکندر مرزا نے پہلے قائم مقام گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا اور 1955 میں صدر پاکستان بن کر براہِ راست حکومتی جوڑ توڑ شروع کر دیا۔ انہوں نے اگست 1955 میں چوہدری محمد علی کو امریکہ سے بلاکر ملک کا وزیراعظم مقرر کیا، ستمبر 1956ءمیں ایوان صدر نے عوامی لیگ کے سربراہ حسین شہید سہروردی کو اپنی اس تجربہ گاہ میں وزیراعظم بنوایا اور استعمال کر کے چلتا کر دیا۔ اکتوبر 1957ءسے دسمبر 1957تک تین ماہ کیلئے ابراہیم اسماعیل چندریگر اور دسمبر 1957ءسے اکتوبر 1958 تک 10ماہ کیلئے فیروز خان نون بھی وزیراعظم رہے۔ 7اکتوبر 1958ءکو صدر اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لگا کر بالآخر اپنے عزائم کو عملی شکل دیدی لیکن 20روز بعد ہی انہیں اقتدار جنرل ایوب خان کے حوالے کرکے لندن میں اپنی باقی زندگی جلا وطنی میں بسر کرنا پڑی۔ انگریز کے لے پالک، خان بہادروں و جاگیرداروں پر مشتمل سیاسی کھوٹے سکوں نے اوائل آزادی سول و فوجی بیورو کریسی کے ساتھ ملکر ملک و ملت پر اقتدار کی ترجیح کا ایسا شرمناک ڈرامہ شروع کیا کہ جو نام نہاد جمہوری حکومتوں کے دور میں بھی جاری رہا، بنا بریں ناگزیر ضرورتوں کیلئے انتہا پسند عناصر بھی اس کے کردار بنا دئیے گئے۔ اس سےملکی ترقی کا پہیہ جام ہو گیا، مختلف مافیاز نے جنم لیا، نتیجے میں امیر، امیر تر اور غریب زندہ درگور ہوتے چلے گئے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں آنے والی حکومت کیسے غریبوں کے دکھوں کا درماں بن سکی گی، نیز سوال یہ بھی ہے کہ پیارے پاکستان میں غریب پاکستانیوں کے ساتھ یہ سب کچھ صرف آئی ایم ایف کر رہا ہے یا خود کو دنیا کے ارفع مسلمان کہلوانے والے بھی اس میں شریک ہیں؟