(گذشتہ سے پیوستہ)
پاکستان کے سیاسی حلقوں کیلئے نواز شریف کی وطن واپسی غیر متوقع تھی اور پھر طرفہ تماشا یہ کہ نواز شریف کو عدالتی ریلیف مل گیا ،ان کو دی گئی سزا کے خلاف دائر اپیلیں بحال ہو گئیں تو 16ماہ کی پی ڈی ایم حکومت کی اتحادی جماعتوں نے سب سے زیادہ ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کا شور و غوغا کر دیا ۔پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کو’’ لیول پلینگ فیلڈ‘‘ دینے کی وکالت کرتی نظر آرہی ہے بلکہ اسے اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں آنے کیلئے تمام رکاوٹیں دور کی جا رہی ہیں ۔آصف علی زرداری نے آئندہ انتخابات میں کامیابی کیلئے جو بساط بچھائی تھی وہ نواز شریف کی واپسی سےالٹ گئی کیونکہ مسلم لیگ (ن) نے کامیابی کی صورت میں نہ صرف نواز شریف کو وزارتِ عظمی کا امیدوار نامزد کر دیا ہے بلکہ بقول فیصل کنڈی نواز شریف کی آمد کے دو ہفتے بعد ان کا آصف علی زرداری سے رابطہ تو ہو گیا لیکن تا حال ملاقات کی کوئی صورت نہیں نکلی فیصل کنڈی کو شاید اس بات کا غم ہے کہ نواز شریف کی ’’بخیرو عافیت‘‘ واپسی کے بعد ان کی آصف علی زرداری سےملاقات نہیں ہوئی ، دونوں کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہوا جس میں دونوں نے ریاست بچانے کیلئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کو پنجاب سے چند نشستیں تحفتاً پیش کریگی، پیپلز پارٹی کو بدلے ہوئے پاکستان میں بدلا ہوا نواز شریف نظر آرہا ہے جو پنجاب میں کسی جماعت سے’’ شیئر ‘‘ کرنےپر تیار نہیں چنانچہ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے ترجمانوں کی جانب سے ایک دوسرے کو ’’سوکنوں ‘‘ کی طرح طعنے دئیے جا رہے ہیں ، مریم اورنگ زیب نے کہا کہ پیپلز پارٹی ’’ لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کا رونا نہ روئےبلکہ الیکشن فیلڈ میں آئے،ایک طرف پیپلز پارٹی لیول پلینگ فیلڈ نہ ہونے کی بات کرتی ہے تودوسری طرف کلین سویپ کا دعویٰ کرتی ہے۔فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ہم لیول پلینگ فیلڈ کی بات کر رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اسکو ایون فیلڈ سمجھ رہی ہے ۔عام تاثر یہ تھا کہ16ماہ کی شہباز حکومت نے مسلم لیگ (ن) کا ’’سیاسی سرمایہ ‘‘ تباہ برباد کر دیا ہے لہٰذا عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ لینے والا کوئی نہ ہو گا لیکن نواز شریف کی واپسی کے بعد صورت حال یکسر تبدیل ہو گئی ہے مسلم لیگ (ن) میں پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے باقاعدہ لڑائیاں جاری ہیں۔ اس وقت جتنی گروپ بندی مسلم لیگ (ن) میں ہے شاید ہی کسی اورجماعت میںدیکھنے میں آئی ہوکیونکہ ہر مسلم لیگی نے یہ سمجھ لیا ہے کہ نواز شریف واپس آگئے ہیں تو بس اب جیت مسلم لیگ (ن) ہی کی ہے ۔جبکہ پیپلز پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی کو یہ خدشہ لا حق ہو گیا ہے مسلم لیگ (ن) کو برسر اقتدار لانے کیلئے سٹیج سجایا جا رہا ہے پی ٹی آئی9مئی2023کے سانحہ میں اپنا پورا سیاسی سرمایہ تباہ کرچکی ہے، اس کے باوجود پی ٹی آئی کے ترجمان اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک قائم دائم ہے، پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے ملاقات کر چکی ہے،جس میں اس نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیاہے،چیف الیکشن کمشنر نےیقین دہانی کرائی ہے بلے کا نشان پی ٹی آئی کا ہی ہو گا انہوں نے یہ بات بھی کہہ دی کہ ’’فکر نہ کریں چیئرمین پی ٹی آئی مائنس نہیں ہو گا اورچیئرمین پی ٹی آئی وہی رہیں گے‘‘ عام انتخابات کے تناظر میں ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کا لفظ اردو زبان میں بھی مستعمل ہو گیا ہے اب تو وہ جماعتیں بھی ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ فراہم کرنے کا تقاضا کر رہی ہیں،جنہوں نے شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت کو بھرپور طریقے سے انجوائے کیا۔ پیپلز پارٹی البتہ پر امید ہے کہ 1988ء کی طرح کامیابی کے جھنڈے گاڑے گی ۔نواز شریف نے ملک کو درپیش معاشی بحران ، عوام کو مہنگائی ، بے روز گاری اور غربت سے نجات دلانے کیلئے 9نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہےمسلم لیگ (ن) نے انتخابی مہم میں اترنے کی پوری تیاری کر لی ہے نواز شریف نےمسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد سب سے پہلا کا م منشور کمیٹی کے قیام کاکیا ، اگرچہ بھاری بھرکم کمیٹی قائم کی گئی ہے علمی لحاظ سے بھاری بھرکم شخصیت سینیٹر عرفان صدیقی کو منشور کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا ہے مسلم لیگ (ن) کا منشور ماضی میں تیار کئے جانے والے منشوروں سے مختلف ہونا چاہیے،یہ منشور معاشی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہونا چاہیے اور عام آدمی کو مہنگائی کے چنگل سے باہر نکالنے کا باعث ہونا چاہیے ۔سوال یہ ہے کہ نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ان کے پرانے ساتھی آج کہاں کھڑے ہیں ؟چوہدری نثار علی خان کامسلم لیگ (ن) میں واپسی کا با ب ختم ہو گیا ہے لیکن شاہد خاقان عباسی ، مہتاب احمدخان ، اقبال ظفر جھگڑا ،مفتاح اسمعیل سمیت مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنمائوں کی ایک بڑی تعداد ’’ناراض ‘‘بیٹھی ہے انہیں کون راضی کرے گا ؟ مسلم لیگ (ن) میں کچھ لوگوں نے ان رہنمائوں کی جماعت میں واپسی کے راستے مسدود کر دئیے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں ان کی واپسی سے انہیں پارٹی کی پچھلی صفوں میں بٹھا دیا جائے گا ۔
مجھے ایک لاہورئیے نے خاص طور پر فون کر کے کہا ہے کہ ’’ مسلم لیگ (ن) نے مینار پاکستان کے سائے تلے بہت بڑا جلسہ کیا ہے لیکن اسے اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ اس نے پنجاب کا میدان مار لیا ہے۔ پچھلے 4، 5سال میں حالات خاصے تبدیل ہو گئے ہیں اب تو لاہور پر مسلم لیگ (ن) کی گرفت کمزور ہو گئی ہے مسلم لیگ (ن) کو اپنی گرفت مضبوط ہونے کے اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کیلئے بڑی محنت کرنا ہو گی ۔