• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کو اب اس بات کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ مقبوضہ کشمیر میں لڑنے والے آزادی کے متوالے دہشت گرد نہیں بلکہ مجاہد ہیں ،جنہیں بھارت آج تک دہشت گردوں سے تعبیر کرتا چلا آیا ہے جنکے خون کا اگر حساب لگایا جائے تو اس سے سیلاب آجاتے، جنتا خون بھارتی سورما انکا بہا چکے۔ایسے ہی فلسطین میں ایک ناجائز ریاست اسرائیل کے خلاف حق کی آواز بلند کرنے والے حماس کے جوان بھی مجاہد ہیں جنہیں آج امریکہ اسرائیل دہشت گرد کہہ رہے ہیں انکا جتنا لہو اسرائیل نے بہایا ہےجسکا حساب لگایا جائے تو اس سے بھی ندیاں بہہ نکلیں۔ در اصل اسرائیل امریکہ اور انکے حواریوں کی نظر میں دہشت گرد وہ ہیں جو امن انصاف اور انسانیت کے حقوق کیلئے آواز بلند کرتے ہیں۔فطرت کا قاعدہ ہے کہ آپ جس کو جتنا دبائیں گے وہ اتنا ہی ابھرے گا دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی طاقتور ،جابر نے خواہ کتنے ہی کمزور شخص یا قوم کو دبایا وہ اتنا ہی ابھرے ہیں ،بس اتنی سی بات حرص و ہوس کے مارے ہوئے امریکی اور اسرائیلی گماشتوں کو سمجھ نہیں آرہی لیکن ہمیشہ کی بگڑی ہوئی قوم اتنی جلدی سمجھتی بھی نہیں۔اگر ان یہودیوں میں ذرہ برابر بھی انسانیت ہوتی تو انہیں دنیابھر سے ٹھکرایا نہ جاتا ۔امریکہ برطانیہ یورپ سمیت سب اس بات کو جان چکے تھے کہ یہودی انسانیت کے دشمن ہیں جنہیںاپنے پاس رکھنا اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ ہٹلر نے یہودیوں کو تہہ تیغ کیا تھا ۔آخر کچھ تو تھا کہ اتنی بڑی سطح پر ہٹلر یہودیوں کا صفایا کر گیا ۔آپ خود سوچئے جس قوم کی فطرت میں ظلم کرنا ہے اور ظلم کرکے وہ اس میں لذت پائے...کسی کی مذمت ،کسی قرارداد کو خاطر میں نہ لائے اسپتالوں،سکولوں مساجد،چرچ،حتیٰ کہ کہیں پناہ لئے ہوئے نہتے اور زخمی فلسطینیوں پر بھی بم برسا دے تو کیا ایسی قوم قابل رحم یا لائق بھروسہ ہے؟ یقیناً ہٹلر کی نگاہ بینا اس کا ادراک کرچکی تھی۔ امریکہ،برطانیہ،فرانس تقریباً سارا یورپ ایسے ہی معاشرے کی تصویر ہے جہاں انصاف کا نام دنیا کو سنانے اور انصاف دنیا کو دکھانے کے لیے ہوتا ہے جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے امریکہ، برطانیہ، یورپ یہ معاشرے دنیا کے امن اور تہذیب کے دشمن ہیں جو دنیا کو ہلاکت انگیزیوں تک لے آئے ہیں حالانکہ مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے لوگ جانتے ہیں کہ یہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی کہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کائنات میں جلوہ افروز ہوکر انسانیت کو سرفرازیاں بخشیں حالانکہ امریکہ برطانیہ یورپ آج جن برائیوں کا محور ہیں ایسی ہی کچھ برائیاں ظہور اسلام سے قبل اپنے عروج پر تھیں اور نبی مہربان ﷺ نے اپنی تعلیمات سے ان برائیوں کا خاتمہ کیا، دنیا کو اپنے اعلیٰ اخلاق، اچھے کردار سے اپنا گرویدہ بنا لیا مشرکوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق اور امین مانا لیکن آج کا مشرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا اعتراف تو کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بنائے ہوئے قوانین اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضع کردہ اصول اپنا کر کامیاب تو ہے لیکن وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے درپے ہے، اسے ختم کر دینا چاہتا ہے، مٹا دینا چاہتا ہے۔ حالانکہ مسلمان تو امن پسند ہیں،صلح جو ہیں ۔ اخوت اور بھائی چارے کے داعی ہیں ،بس یہی بات دنیا کے غیر مسلموں کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے کہ امن پسند مسلمان اگر دنیا پر غالب آگئے تو غیر مسلم ظلم کس پرڈھائیں گے۔ اور وہ اپنی شرارتوں کیلئے کسے تختہ مشق بنائیں گے۔وہ من مانیاں کیسے کرینگے۔ یہاں ایک بات قابل صد افسوس ہے کہ ہمارے مسلم حکمران بھی ان کافروں سے مرعوب ہوگئے ہیں اور انہیں اپنا آقا تصور کرنے لگے ہیں یہی وجہ ہے دنیا کے مسلم ممالک میں غیر مسلموں کا عمل دخل روزبروز بڑھتا گیا آپ پاکستان کو ہی لےلیجئے جہاں امریکی آقاؤں کی جنبش ابرو پر سیاست کا رخ بدل دیا جاتا ہے اور امریکی اشاروں سے انحراف کرنے والے سیاستدانوں کو نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے ہم دنیا کی غلامی سے آزاد ہوتے تو ہمارا مقام و مرتبہ ہی کچھ اور ہوتا ۔آج حرام کاری کے نتیجے میں پرورش پانے والے اسرائیلی، معصوم اور بے گناہ فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اسے معلوم ہے کہ کسی مسلم ملک میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ان کے خلاف ایک قدم بھی اٹھا سکے۔ یہ امریکہ ، اسرائیل، برطانیہ، یورپ! یہ سب ایک دوسرے کی ناجائز اولادیں ہیں جنہوں نےاپنےبے راہرومعاشروں میں جنم لے کر بداعمالیوں میں نام کمایا لہٰذا امریکیوں اور اسرائیلیوں کو ناجائز اولادیں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، اس لئے ان سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہی بات کئی بار دہرائی جا چکی ہے کہ مسلم حکمرانوں کو اپنے عالیشان محلات سے نکل کر مذمتوں کی بجائے ان ظالموں کا مقابلہ کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور سائنس میں ترقی کے آپشن کو اپنانا ہوگا کہ اس بغیر کوئی چارہ نہیں آج اگر قطر،مسقط،سعودی عرب میںسے کوئی ایک بھی جوہری طاقت ہوتا تو کیا اسرائیل کی جانب سے کوئی غزہ پر ایٹمی حملے کی دھمکی دیتا؟اگر آج پاکستان کے ابدالی غزنوی حتف شاہین میں سے کوئی میزائل غزہ پہنچا دیا جاتا تو کیا اسرائیل اپنے مظالم کا سلسلہ دراز کرتا؟لیکن ہم تو دنیا کے مقروض کسی سے آنکھ تک نہیں ملا سکتے ہم فلسطینیوں کے قدم سے قدم ملا کر کیا چلیں گے؟

تازہ ترین