ایسا بوجھل وقت جب انسان یاسیت کی دھند میں گم ہوجاتا ہے : اس کی آواز خاموش ہو جاتی ہے ، توانائی کے سوتے بانجھ ہوجاتے ہیں، الفاظ اپنے معنی کھو دیتے ہیں اور سوچ بچار کی صلاحیتیں مفلوج ہوجاتی ہیں ۔ یہ ایسی کیفیت ہے جس میں انسان بہتری کے تمام احساسات سے عاری ہوجاتا ہے ۔ اگر میں کہوں کہ اس وقت ملک کے زیادہ تر لوگ اسی کیفیت کی گرفت میں ہیں تو مجھے یقین ہے کہ میں غلطی پر نہیں ہوں گا۔ طویل عرصے سے ہمارا نمو کا سفر تو رک چکا ، لیکن ہماری فکری گراوٹ کی کوئی حد نہیں ۔ یہ سیاہ باب ہر اس ناکامی سے زیادہ گھمبیر ہے جو اس وقت ہمارا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ ایسا نہیں کہ ہم ہمیشہ سے تہذیبی چکاچوند کے خواب دیکھا کرتے تھے ۔ یہ افق تو عرصہ دراز ہوا تاریک ہوچکا ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہم اپنے پائوں میں پڑی ان بیڑیوں سے رہائی پانے اور ان طوفانی لہروں سے نکل کرتازہ پانیوں میں سفر کرنے کی خواہش سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ ہماری اپنی خامیاںہوں ، لیکن حالات کو اس نہج پرڈھالنے میں اُس ماحول کا بھی بڑا کردار ہے جس میں ہم رہنے پر مجبور ہیں ۔ صبح، دوپہر ، شام، وہی گھن چکر، جیسے ہم کسی مشین کے پرزے ہوں اور اس حرکت پر ہمارا کوئی کنٹرول نہ ہو۔ ہم متحرک ہوتے ہیں ، چکر کاٹتے کاٹتے ، کچھ دیر بعد دبارہ اسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں سے ہمارا سفر شروع ہوا تھا ۔اس دوران نہ ہم کچھ سیکھتے ہیں ، نہ ہمارے علم میں کسی اضافے کی نوبت آتی ہے ۔
جمود چاہے مادی ہو یا فکری ، یہ جسم اور ذہن کے ہر حصے کو متاثر کرتا ہے جس کا تعلق ان پٹ سے ہے ۔ اس کا سفاک اثر جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو مفلوج کردیتا ہے ۔جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ بڑی حد تک یہ ہمارا ہی کیا دھرا ہو، لیکن جب امید کا پہلو ہماری زندگیوں سے نکل جاتا ہے تو مہلک سکوت کی کھوکھلی صدائیں ہماری زندگیوںکے صحرامیں گونجنے لگتی ہیں ۔ یہ بانجھ پن رفتہ رفتہ تمام سماج کو نگل لیتا ہے ۔
وقت میں پیچھے جا کر دیکھا جائے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جنھوں نے اس نہج تک پہنچانے میں کردار ادا کیا ہے اور وہ کون سے اقدامات ہیں جو ہمیں اخلاقی، مادی اور فکری زوال کے اس دلدل سے نجات دلانے کے لیے ضروری ہو سکتے ہیں؟ یہ اسلئے ہے کیونکہ یقینی طور پر موجودہ حالات نے انسانی کوشش کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی جو ہمیں اس خرابی سے نکال دے اور ہمیں علاج اور حتمی نجات کی راہ پر گامزن کرے۔ پھر بھی اس کیلئے دو جہتی کوشش درکار ہوگی: پہلے اس زوال کو روکنا جس میں ہم پھنس گئے ہیں اور پھر ایک ایسا راستہ تراشنا جو ہم اپنے آس پاس کی چیزوں کی شکل بدلنے کیلئے اختیار کریں ۔
قائد کی وفات کے بعد 11اگست 1947ءکی ان کی تقریر نے نوزائیدہ ریاست کیلئے جو بنیادی اخلاقیات طے کی تھیں، انہیں تباہ کردیا گیا۔ اس کے بعدملک کو نظریاتی شکاریوں نے ہائی جیک کر کے اس کا سرمایہ حیات ختم کردیا ۔ انسانی زندگی اور عقیدے کو ریاستی جبر یا مداخلت سے پاک کرنے کے بجائے ہمیں وہ زنجیریں پہنا دی گئیں جو کہ مادی اور فکری ترقی کو جکڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں آئین بنانے میں تقریباً ایک چوتھائی صدی لگ گئی۔ مزید پچاس سال گزرنے کے بعد، اس آئین کو توہین آمیز طریقے سے پامال کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ریاستی ادارے عملی طور پر منہدم ہوچکے ہیں کیونکہ ان میں وہ سکت ہی نہیں رہی جو ملکی نظام سنبھال سکے ۔ معاملات ایسے افراد کے سپرد کیے گئے ہیں جو بلا شبہ طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جن کے تصرف میں ریاستی مشینری ہے۔ یہ مشین ایک ناہموار راہ پر چل رہی ہے جس کی منزل تاحال نامعلوم ہے ۔ اس د وران ڈھلوان سے اس کے نیچے جانے کی رفتار بے قابو ہوچکی ہے ۔جس دوران میں یہ الفاظ تحریر کررہا ہوں، بے حسی کا احساس شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس مشکل کام کو انجام دینے کی خواہش نہیں رہی، نجات کی راہیں بھی روح فروشوں کے ایک گروہ کو فعال اور بااختیار بنا کر مسدود کر دی گئی ہیں جو بہت خوشی سے اپنی قیمتوں کے ٹیگ سینے پر آویزاں کیے ہوئے ہیں۔ روح فروشی کے عوض انھیں کچھ ملے گا۔ اس غیر قانونی اجناس کا ذخیرہ اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دستیاب ہے جو اپنے سزا یافتہ رہنما کے ساتھ لوٹ مار کا سلسلہ دراز کیے ہوئے ہیں ۔
نظریاتی طور پرانتخابات تبدیلی کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ 9 فروری طے کی ہے، لیکن اس امکان پر یقین کی مہر لگنے میں ابھی بہت کام باقی ہے:تحریک انصاف کو مکمل طور پر ختم کرنا جو کسی بھی ریاست کے ڈھائے گئے انتہائی بھیانک ظلم کے باوجود آج بھی باقی ہے۔ سیاسی جماعت اور اس کے ارکان بشمول خواتین اور نوجوان لڑکیاں، ضمانتیں ملنے کے باوجود قید میں ہیں۔ عدالت کے احاطے سے نکلتے ہی دوبارہ گرفتار کر لئے جاتے ہیں۔ ان پر من گھڑت اور بے بنیاد الزامات ہیں۔ انھیں منصفانہ ٹرائل کے حق سے محروم کرنا مجرمانہ معمول بن چکا ہے۔
یہ سب ایک منفی میکانزم کے اجزا ہیں جو عوام کو یرغمال بنائے رکھنے اور حقوق اور انصاف کے لیے آواز اٹھانے سے روکتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ملک کو ایک وسیع و عریض بنجر زمین میں تبدیل کیا جا رہا ہے جہاں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، یا وہ کس طرف جارہے ہیں، اور وہ اپنی مطلوبہ منزل تک کیسے پہنچیں گے۔وہ ایسی حالت میں ہیں جہاں نہ کوئی حال ہے نہ مستقبل۔وقت ایک الجھا ہواڈھیر ہے جس میں انسانی زندگی کے چیتھڑے بکھرے ہوئے ہیں ۔ موجودہ حالات میں تو امید کا کوئی سورج طلوع ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ مستقبل قریب میں کوئی صبح ہماری منتظر ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتے۔
صاحب تحریر پاکستان تحریک انصاف کےسیکرٹری انفارمیشن ہیں۔