• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک انگڑائی سے سارے شہر کو نیند آگئی

یہ تماشا میں نے دیکھا بام پر ہوتا ہوا

یہ انگڑائی سیاست میں میاں نواز شریف کی آمدکے باوصف دیکھی گئی ۔ میاں صاحب کے مینار پاکستان پر عوامی استقبال سے گویا مذگورہ شعر کے مصداق ایک جہاں ورطہ حیرت سےڈوب سا گیا۔جہاں عدالتوں نے اپنے دروازے وا کئے تووہاں مخالفین کے تیر بھی میان سے باہر آتے گئے۔ لاڈلے اور کنگزپارٹی کاشور ایسا تلاطم خیز ہواکہ ملک بھر کےاہلِ سیاست متوجہ ہوگئے ۔ن لیگ کے راہنما جہاں اس تاثرکو زائل کرنے کیلئے استدلال تراش رہے ہیں تووہاں چاروں صوبوں میں اپنی نمائندگی بنانے کیلئے مختلف جماعتوں اور الیکٹیبلز کہلائے جانے والے ابن الوقت اُمیدواروں کو ساتھ ملانے کیلئے بھی متحرک ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ن لیگ اقتدارمیں آتی ہے تو وہ اتحادیوں کی بلیک میلنگ کا کیونکر شکار نہ ہوگی؟ الیکٹیبلز کی حمایت حاصل کرنے کیلئے بڑی جماعتیں جس طرح اپنی توقیر گنواتی ہیں وہ پاکستانی سیاست کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ن لیگ میں شامل اصحاب سے بھلاکون بہتر جانتاہے کہ پارلیمنٹ میں عددی برتری کی خاطر بقول نصرت صدیقی۔

چھوٹے لوگوں کو بڑا کہنا پڑتاہے اکثر

ایک تکلیف کئی بار سہی ہے میں نے

ہماری سیاست کا معروف اصول یہ ہے کہ یہاں کوئی اصول نہیں ہے۔ ہماری سیاست کی شاہراہ حوادث کے جس آتش سے تپتی رہی ہے، وہ خام سے خام مواد کو بھی کندن بنانے کیلئے کافی ہے لیکن ہم نے ان سارے تجربات کا ماحصل محض یہ جان لیا ہے کہ ملک و قوم کی گاڑی تو جہاں رکی ہے سو یہی اس کا مقدر ہے۔ البتہ جو موقع ہاتھ آیا ہے اسے اپنا مقدر سنوارنے کا ہی وسیلہ بنا لیا جائے۔ جب عالم، علم و فن کا یہ ہو کہ بے اصولی کو اصول قرار دینے کیلئے توجیہات کے انبار تراش لئے جائیں تو پھر ابن الوقت روز افزوں کیوں نہ ہوں گے۔ یہ درست ہے کہ سیاستدانوں کا کوئی جماعت چھوڑ جانا اور پھر اس میں دوبارہ شمولیت اختیار کرنا انوکھی بات نہیں۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا رہتا ہے لیکن یہ عمل جس قاعدے و اصول کا پابند تصور کیا جاتا ہے ہمارے ہاں اس کے شواہد نہیں ملتے  ۔ ہمارے ہاں آنے جانے کا مقصد نظریاتی نہیں بلکہ پارلیمانی طور پر ہی کسی کو کمزور یا مضبوط بنانا ہوتا ہے، چونکہ اس کھیل میں ملک و نظریئے کے بجائے اپنا مفاد عزیز رکھا جاتا ہے اس لئے ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کو وہ توقیر نصیب نہیں ہوتی جو کسی فکری و تنظیمی ٹکراؤ کے باعث آنے جانے والوں کو ہوتی ہے اور یوں ایسے ابن الوقت عوامی اصطلاح میں لوٹے کہلاتے ہیں۔ ممتاز طنز نگار انور مقصود نے کئی برس قبل ایک پروگرام میں اس حوالے سے پروین شاکر کے ایک لافانی شعر کی طرف کیا خوب اشارہ کیا تھا!

وہ جہاں بھی گیا ”لوٹا“ تو میرے پاس آیا

بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی

انور مقصود کی حسِ ظرافت کی داد دیتے ہوئے یہاں یہ وضاحت بھی نوٹ فرما لیں کہ اس شعر میں جس ”لوٹے“ کی بات ہے یہ وہ ”لوٹا“ یعنی محبو ب ہے جو ”نظری“ اختلاف کے خاتمے کے بعد لوٹ آیا ہے اور ہم جن ”لوٹوں“ کی بات کر رہے ہیں وہ سابقہ حکمرانوں کا دسترخوان خالی پا کر دوسری پارٹیوں کے دسترخوان پر ”لوٹ“ آتے ہیں۔جہاں تک سیاسی اتحادوں کی بات ہے ،موجودہ منظرنامہ میں چوہدری شجاعت حسین سے اختلافات ختم کرنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ چوہدری صاحب ،میاں صاحب کے ساتھ تھے لیکن پھر موجودہ ن لیگ کی جانب سے کچھ ناانصافیوں کے سبب ایسے علیحدہ ہوگئے کہ میاں صاحب کو جواب دینے کیلئے ق لیگ تک گھڑلی ،اب اُن سے دوریاں ختم کرنا علیحدہ معاملہ ہے ،لیکن جس طرح دوسری ایسی جماعتوں سے اتحاد کئے جارہے ہیں جو ماضی یا ماضی قریب تک اُنہیں مطلوبہ وزارتو ںکی خاطر بلیک میل کرتی رہی ہیں ، کیا ضمانت ہے کہ وہ اب اپنا مجرب نسخہ بروئے کار نہیں لائیں گی ۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی پارلیمانی سیاست میں نظریاتی لوگوں کی ضرورت کم اور سیٹ جیتنے والوں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر دور میں ”لوٹے“ اور سودے بازی کی ماہر جماعتیں ہی معتبر ٹھہریں گی تو پھر تبدیلی کا نعرہ کیونکر عملی تعبیر پا سکے گا۔ ملک و جمہوریت کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ جب بھی بڑی سیاسی جماعتوں کو سیاست سے آلائشیں پاک کرنے کا موقع ہاتھ آیا، وہ انہوں نے وقتی مصلحت کی خاطر گنوا دیا۔

تازہ ترین