اشفاق کو میں بچپن سے جانتا ہوں وہ میرا ہم عمر ہے محنتی، جفا کش، اپنے مستقبل کیلئے ہاتھ مارتا فرسٹیٹڈ نسل کا نمائندہ نوجوان سڑکوں پر اخبار بیچ رہا ہے، تو کبھی کارخانے میں کام کررہا ہے، آج کل محلے میں پان سگریٹ کا کھوکھا بنا لیا ہے، میں کونسا وزیراعظم ہوں جو کچھ نہ بھی کروں تو قسمت صدقے واری ہوتی رہے....میں بھی روٹی کے چکر میں ایسا گھن چکرہوا کہ اس کی کیا اپنا بھی ہوش نہ رہا.... ایک ماہ پہلے اس کی بیوی میرے پاس آئی بھائی! انہیں (اشفاق) بینک سے قرضہ دلوا دیں اپنا کاروبار کرنا چاہتے ہیں، اب تو وزیراعظم نے بھی بیروزگاروں کیلئے قرضوں کا اعلان کردیا ہے کیا کریں گزر بسر نہیں ہوتی، ہمارا اتنا بڑا کنبہ ہے اور آمدنی بہت کم ہے، اب تو محلے دار قرض بھی نہیں دیتے، وہ (اشفاق) بہت پریشان ہیں، میں نے جھوٹی سچی تسلی دے دی۔ دل جانتا تھا قرضے ہماری قسمت میں نہیں وہ تو کسی دور بہت دور کی ہم سے مختلف بہت مختلف قسم کے ہیں، جنھوں نے قرضوں کو باقاعدہ ایک آرٹ کی شکل دے ڈالی ہے بہت فن کار لوگ ہیں، بڑے قرضے بڑے گھپلے اور بڑے آدمی عام آدمی تو بیچارا فارم بھرنے میں ہی خرچ ہوجائے، پھر ایک انار اور کوئی اٹھارہ کروڑ بیمار .....شیر بیچارہ کرے بھی تو کیا کرے،کسی اور کو قرضہ مل گیا توکارکن کہاں جائیں گے......
اشفاق کی بیگم مجھے بعد میں جب بھی ملی میں اپنی برتری اور ساکھ قائم رکھنے کے لئے خواجہ سعد رفیق ،خواجہ آصف جیسے ناموں کو استعمال کرکے بتاتا رہا کہ جلد کام ہوجائے گا اور اس کے جانے کے بعد ’’اپنی بے توقیری‘‘ پر غور کرتا رہا، یوں ان کی درخواستوں، میرے فراڈوں ،طفل تسلیوں اور کڑہنے کا سلسلہ چلتا رہا .....چند روز قبل رواروی میں گفتگو ہوتے اچانک ذکر آفتاب کا آگیا، میں نے پوچھا آفتاب کیسا ہے ؟پتہ چلا وہ تو جیل میں ہے اس نے چرس بیچنا شروع کردی تھی، علاقے کے ایک نئے نئے ابھرنے والے طاقتور نے اس کے کھوکھے پر زبردستی چرس رکھوا دی تھی، پولیس نے گرفتار کرکے 800 گرام چرس برآمد کرلی میں چپ ہوگیا، کچھ دیر بعد اشفاق کی بیوی آگئی بھائی پولیس نے انہیں بہت مارا ہے کھانا بھی پہنچانے نہیں دے رہے ،پھر بولی ہم ایف آئی آر لینے گئے تو منشی نے ایف آئی آر کے 200روپے مانگے ہیں ،میرے پاس تو کھانے کے پیسے نہیں۔ میں نے آفتاب کے جرم، معاشرے کے خلاف بغاوت، نوجوان نسل کو تباہ کرنے کی سازش اور دولت کی حرص پر ایک تفصیلی لیکچر دیا، اور آفتاب کی بیوی کو ثابت کیا کہ اس کے شوہر کا جرم کتنا بھیانک ہے یہ سب کہتے ہوئے میں آفتاب کی بیوی کے آنسو سے کتراتا رہا، مجھے اپنا خطاب اشفاق کے کمسن بچے کے رونے پر ختم کرنا پڑا، پھر وہ چلی گئی۔
لیکن اس کے سوال ہنوز گونجتے رہے۔
اشفاق جیل سے باہر کیسے آئے گا۔
ایف آئی آر کے پیسے کہاں سے لائوں۔
منے کو دودھ کہاں سے پلائوں۔
اس کی رہائی کیلئے رقم کا بندوبست کہاں سے کروں۔ کیا خیال ہے آفتاب کو جیل میں ہی باقی زندگی گزارنے نہ دی جائے، ایسے خطرناک مجرم کو معاشرے میں لایا بھی نہ جائے، غضب خدا کا 800گرام چرس، 800کہتے ہوئے منہ بھر جاتا ہے۔اسمگلر خطرناک مجرم، معاشرے کا ناسور، لالچی گھٹیا، دولت کا بیوپاری، بین الاقوامی ایجنٹ کو پھانسی دے دینی چاہئے۔
وہ تو پیدا ہی معاشرے میں خرابی کیلئے ہوا، بچپن سے ہی مجرم کبھی کباڑ خانے سے خطرناک پرزے چراتا رہا، کبھی کارخانوں سے قومی راز، حالانکہ معاشرے نے اس کیلئے سہانے مستقبل کے جال بچھا رکھے تھے، اس کے گھرانے کیلئے خوشحالی بانہیں پھیلائے انتظار کرتی رہی اور وہ مجرم عادی مجرم، حکومت کی جانب سے نوجوانوں کیلئے سینکڑوں تعمیراتی منصوبوں، ترجیحات اور انقلابی پروگراموں کو نظر انداز کرتا رہا، معاشرہ پل پل اسے ویلکم کہتا رہا اور وہ مجرم بنتا چلا گیا، اب اپنے کئے کی سزا بھی بھگتنا پڑے گی، اگر ایک طاقتور نے چرس اس کے کھوکھے پر رکھوائی تو یہ بھی اس کا جرم ہے، اس آزاد مملکت ِخدادادِ پاکستان میں کمزوری سے بڑا جرم بھی کوئی ہے، اب اس کی ٹھیک ٹھاک تربیت کا نیچرل پروسیس شروع ہوگیا، پیسے نہ ہونگے تو ضمانت نہیں ہوگی، ضمانت نہیں ہوگی تو ٹھیک ٹھاک عرصہ جیل میں رہے گا، جہاں اس کے اندر چھپے فرسٹیٹڈ انتقامی اور بگڑنے والے نوجوان کی پرورش ہوگی، گرفتاری، ضمانت، تنہائی، اور اکیلے پن کے تمام ’’کمپلیکسز‘‘دور کئے جائیں گے، اور پھر جب وہ باہر آئیگا تو بھرپور صحت مند پُر اعتماد مجرم تیار ہوچکا ہوگا، اور پھر چل سو چل۔
قانون تو ہے ہی موم کی ناک آفتاب مضبوط ہوگا تو جہاں چاہے اس ناک کو موڑ دے گا، اور پھر سینکڑوں چھوٹے چھوٹے اشفاق بھی تو ہیں جن کے کھوکھے آٹھ آٹھ سو گراموں جیسی بڑی مقداروں کا انتظار کررہے ہیں اور قانون ان کا۔رہا اشفاق کا کم سن بلکتا بچہ وہ بھی ماشاء اللہ اس سسٹم میں داخل ہوگیا ہے، جس میں اس کا باپ پلا بڑھا، بھوک بیچارگی ننگ ، بے بسی، احساسِ محرومی خوف اسے وہی مل رہا ہے جو اس کے باپ کو اپنے باپ سے ملا۔
در اصل اسی قسم کے لوگ بگاڑیئے ہیں ہمارے خوشحال روشن معاشرے کیلئے کلنک کا ٹیکہ ہیں، ہر طرف خوشحالی کی چہچہاہٹ لئے ہنستے گاتے پاکستان کیلئے بد نامی کا داغ ہیں، قوم طالبان سے مذاکرات کی تیاریاں کررہی ہے اور یہ یوم قیامت لانے کی، سنو بگاڑیئے یہ ہم طاقتوروں کا ملک ہے تمام وسائل ہمارے لئے ہیں، محل پلاٹ بنگلے تعلیم کے مواقع، آگے بڑھنے کے رستے، عزت و دولت و شہرت سب ہمارا ہے تم بلبلاتے رہے تمہارا بچہ بلبلاتا رہے، بس یہی تمہارا مقدر ہے اور اگر تم نے ’’دولت وسیع دولت‘‘ اکٹھی کرنے کیلئے ہاتھ پائوں مارے تو کچلے جائو گے ہم تمہیں ماریں گے اور رونے بھی نہیں دینگے، گلہ بھی گھونٹیں گے اور منہ بھی نہیں کھولنے دیں گے، تمہارا کیا خیال ہے اگر معاشرہ تمہارا جائز حصہ نہیں دیتا تو تم ناجائز ذرائع استعمال کرو گے۔
قانون شکن ! تمہارا مقدر ہی جیل ہے چاہے وہ بڑی ہو یا چھوٹی تم نے 800 گرام چرس رکھ کر حکومتیں کھڑکھڑا دینے والے ڈرگ مافیا کے عزت داروں سکاچ مارٹینی وائن بلیک لیبل سے ہلک کڑوا کرنے والے قومی ٹھیکے داروں ،کروڑوں کے سوئس اور برٹش اکائونٹ کے نشے میں سٹابری انجوائے کرنے والوں کو چونکا دیا ہے، تم ان معززین کا مقابلہ کرنے نکلے ہو سمجھتے ہو کہ انہیں کوئی نہیں ہاتھ ڈال سکتا تو تمہیں بھی کوئی کچھ نہیں کہے گا، احمق اپنی حفاظت کیلئے قانون بنانے والے ایسا کوئی موقع نہیں چھوڑتے جو ان کے گلے کا پھندا بنے۔
شکر کرو تمہیں منشیات کی بین الاقوامی ا سمگلنگ پر امریکہ کے حوالے نہیں کیا گیا۔
تم ان کا کیا کر لو گے۔
جینا چاہو گے جینے نہیں دینگے۔
مزدوری چاہو گے مزدوری نہیں دینگے۔
عزت چاہو گے عزت نہیں دینگے۔
قرضہ مانگو گے وہ نہیں ملے گا۔
ملازمت تلاش کرو گے وہ نہیں دینگے۔
غصے میں آئو گے تو مار کھائو گے۔
جیل جائو گے گردن کٹائو گے۔
ایف آئی آر نہیں دینگے۔
ضمانت نہیں ہونگے دینگے۔
انصاف نہیں دینگے۔
تمہارا جرم 800 گرام نہیں، حقیر ہونا ہے کمزور ہونا ہے، تمہارے باپ نے اس جرم کی سزا پائی، تم پائو گے، تمہارا بیٹا پائے گا اور اس کا بیٹا.......
تمہارے لئے صرف ایک آسانی ہے، مر جائو آگ لگائو جل مرو پھر ہم تمہارے گھر بھی آئیں گے، بیوہ کو تسلی بھی دیں گے تصویریں بھی بنوائیں گے، بیان بھی دیں گے اور پھر تمہارے بیٹے کے جل مرنے کا انتظار کریں گے، یہی تمہارا مقدر ہے یہی تمہارا نصیب اور یہی ہماری سیاست۔