• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر کرکٹ کے عالمی کپ کا فائنل میچ بھارتی شہر احمد آباد کے نریندرا مودی کرکٹ اسٹیڈیم کے بجائے لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ہو رہا ہوتا اور بے شک یہ میچ پاکستان اور آسٹریلیا کے مابین ہی کیوں نہ ہوتا تو میں پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ آسٹریلوی بائولروں کی طرف سے پاکستانی بلے بازوں کی وِکٹ لینے پر یا آسٹریلوی بلے بازوں کی طرف سے پاکستان بائولروں کو چوکا یا چھکا لگانے پر،حتیٰ کہ آسٹریلیا کے پاکستان کو ہرانے پر بھی اسٹیڈیم میں پاکستانی شائقینِ کرکٹ کی طرف سے آسٹریلیا کی ٹیم کیلئے نہ صرف بھرپور تالیاں بجتیں بلکہ دل سے آسٹریلوی کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی کی تعریف اور عزت بھی کی جاتی۔ عالمی کپ کا فائنل جیتنے پر انہیں مبارکباد ضرور دی جاتی۔ تاہم یہ میچ لاہور نہیں بلکہ بھارتی شہر احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں تھا، جسے بھارت دنیا کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم کہتا ہے۔ یہ اسٹیڈیم نیلی شرٹس پہنے بھارتی شائقینِ کرکٹ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے سپورٹرز سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جن کی طرف سے آسٹریلوی ٹیم کی بیٹنگ اور بائولنگ دونوں شعبوں میں عمدہ کارکردگی کے باوجود شاید ہی کوئی تالی بجائی گئی ہو یا ان کی کوئی تعریف کی گئی ہو۔ سوشل میڈیا پر تو یہ تبصرے بھی ہو رہے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نے اپنے نام پر بنائے گئے اس اسٹیڈیم میں آسٹریلوی ٹیم کو نہایت بے دلی سے عالمی کپ کی ٹرافی اس طرح پکڑائی جیسے وہ ان پر کوئی بہت بڑا احسان کر رہے ہوں۔اسکے مقابلے میں جب 1996ء میں قذافی اسٹیڈیم لاہور میںآسٹریلیا سری لنکا سے عالمی کرکٹ کپ کا فائنل ہارا تھا تو اس میچ میں نہ صرف پاکستانی شائقین کی طرف سے دونوں ٹیموں کی یکساں طور پر بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی تھی بلکہ اُس وقت کی پاکستان کی وزیراعظم محترمہ بےنظیر بھٹو نے بڑی خوشدلی سے سری لنکن ٹیم کو وِننگ ٹرافی تھماتے ہوئے ان کی بھرپور عزت افزائی کی تھی۔

بھارت کا یہ رویہ صرف فائنل میچ میں ہی نہیں دیکھا گیا بلکہ پورے ورلڈ کپ کے دوران ایسے کئی واقعات رونما ہوئے جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ بھارت ورلڈ کپ کیلئے ایک اچھا ہوسٹ نہیں ہے۔ پہلےتوعالمی کپ دیکھنے کیلئے بھارت جانے کے خواہاں شائقینِ کرکٹ بالخصوص پاکستانی شائقین کے ویزے غیر ضروری تاخیر کا شکار ہوئے، پھر پاکستانی شائقین کو اسٹیڈیم میں پاکستان کے میچ کے دوران’’ پاکستان زندہ باد ‘‘کے نعرے لگانے سے روکا گیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں، جو ایک برطانوی فین بنا رہا تھا ، بھارتی شائقین پاکستان اور بنگلہ دیش کے حوالے سے برے الفاظ اور غلط زبان استعمال کر رہے تھے۔ اور تو اور بھارتی شائقین اسٹیڈیمز میں نفرت انگیز نعرے لگاتے رہے۔ یہی و جہ ہے کہ سوشل میڈیا پر شائقین،کرکٹ کی عالمی تنظیم (آئی سی سی )کو مخاطب کرکے کہہ رہے ہیں کہ بھارتی کرکٹ بورڈ، جو خود کو دنیا کا سب سے امیر ترین کرکٹ بورڈ کہتا ہے، عالمی کپ کیلئے کوئی منظم انتظام نہیں کر سکا۔ بھارتی کرکٹ بورڈ پر بھارتی ٹیم کو غلط ایڈوانٹیج دینے کے الزامات بھی موجود ہیں۔

سائمن وائلڈ ،جوبرطانوی کرکٹ جرنلسٹ ہیں، نے برطانوی اخبار The Times میں بھی ورلڈ کپ میں بھارتی بورڈ کی ضابطگیوں اور دیگر مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ کرکٹ یا کوئی بھی عالمی ایونٹ ہوسٹ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ نے صرف اپنے ملک کے شائقین کو یہ ایونٹ دکھانا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر سے شائقین یہ ایونٹ دیکھنے آئیں اور اپنی اپنی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ ایک اچھی اسپورٹس مین اسپرٹ میں یہ مقابلے ہو سکیں۔ سائمن وائلڈ نے کرکٹ ورلڈ کپ کا موازنہ رگبی کے عالمی کپ سے کیا ، جہاں ہر ملک کے شائقین کو آنے کی مکمل آزادی حاصل تھی، کسی ملک کے شائقین کو ویزا میں تاخیر کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کسی ملک یا ٹیم کے خلاف اسٹیڈیم میں نفرت انگیز نعرے نہیں لگائے گئے۔ کسی بھی کھیل کے عالمی مقابلے یقیناً ایسی ہی فضا میں منعقد کروائے جانے چاہئیں۔

ورلڈ کپ 2023ء بھارت کیلئے دنیا بھر میں اپنی سافٹ پاور منوانے کا موقع تھا۔ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاحت کو فروغ دے سکتا تھا۔ اس کے بجائے بھارت نہ صرف عالمی کپ ہار گیا ہے بلکہ اپنے اس مشن میں بھی بہت بری طرح سے ناکام ہوگیا۔اس کے سب سے بڑے شواہد ورلڈکپ کے فائنل میچ میں ملتے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اسٹیڈیم میں ایک لاکھ چوبیس ہزار شائقین نے میچ دیکھا جن میں صرف چند سو آسٹریلین تھے جبکہ باقی پوراا سٹیڈیم بھارتی شائقین سے بھرا ہوا تھا۔ کرکٹ کے عالمی ستاروں کو دیکھنا اور ان کی اچھی کارکردگی کو سراہنا کھیل کا بنیادی حصہ ہے۔ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہوتی ہے لیکن اسپورٹس مین اسپرٹ کسی بھی کھیل کا بنیادی حصہ ہوتی ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر اچھے کھلاڑی کی کارکردگی کو سراہا جائے، اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کھیل کے ذریعے نفرت نہیں بلکہ امن، محبت اور ہم آہنگی کو پھیلایا جائے۔

دوسری طرف جیت کے بعد آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کے کپتان نے آسٹریلیا کی مقامی سپورٹ ٹیم جو ہندوستانی شہریوں پر مشتمل تھی، کے ہاتھ میں ٹرافی دی پھر خود اپنے موبائل سے ان کی تصاویر بنائیں ۔جس سے آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز نے یہ مثبت پیغام دیا کہ یہ صرف آسٹریلیا کی پلینگ الیون کی کامیابی نہیں بلکہ ہر اُس فرد کی کامیابی ہے جس نے آسٹریلوی ٹیم کی جیت میں کردار ادا کیا۔ ایک طرف آسٹریلوی کپتان کی اسپورٹس مین اسپرٹ تھی تو دوسری طرف وہ بھارتی رویہ جس کا کالم میں ذکر کیا جا چکا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین