سات اکتوبر کی صبح حماس نے اسرائیل پر حملہ کرکے صرف اسرائیل کو ہی حیران و پریشان نہیں کیا بلکہ امریکہ کو بھی چونکا دیا تھا کیونکہ اتنے منظم حملے کے پیچھے اتنی طویل منصوبہ بندی اورتیاری کارفرما تھی لیکن نہ اسرائیل اور نہ ہی امریکی انٹیلی جنس کو اس حملے کی بھنک پڑ سکی ۔ اسرائیل نے اپنے شہریوں پر ہونیوالے حملے کے جواب میں غریب، معصوم اور مظلوم فلسطینیوں پر ظلم کے وہ پہاڑ توڑے کہ جس کو روکنا ابھی تک ممکن نہیں ہو پایا۔سات اکتوبر کی شام کو حماس اور حز ب اللہ کے ارکان اسرائیل میں کامیاب کارروائی پر جشن مناتے نظر بھی آئے اور پھر وہ غائب ہو گئے کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کہاں سے آئے اورکہاں غائب ہوگئے۔ گزشتہ چند برسوں میں عرب ممالک،اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے جن میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی شامل تھے ۔لہٰذاایک رائے یہ ہے کہ حماس نے اسرائیل کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچانے کیلئے اسرائیل پر حملہ کیا ، یا پھر اسرائیل نے حماس کی جا نب سے حملے کی تیاریوں کو اس لیے نظرانداز کیاکہ اسرائیل غزہ پر قبضہ کرکے اپنی سلامتی کو محفوظ بنانا چاہتاہے۔
اس حملے کے بعد اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف پوری قوت سے کارروائی شروع کر دی۔ غزہ پٹی کا محاصرہ کرلیا او ر بجلی ، پانی اور خوراک کی سپلائی روک دی ۔ اسرائیل اور فلسطین دونوں جگہوں پر تباہی و بربادی کا سلسلہ جارہی ہے ۔ جنرل اسمبلی نے گزشتہ ماہ عرب گروپ کی پیش کردہ فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کر لی جس میں اسرائیل اور فلسطین دونوں کی جانب سے شہریوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کی مذمت کی گئی تھی ۔ جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں اردن کی جانب سے 22عرب ممالک کی نمائندگی کرتے ہوئے غزہ کی صورتحال سے متعلق پیش کی گئی قرارداد کی 195میں سے فرانس سمیت 120ارکان نے حمایت کی ۔ اسرائیل ، امریکہ اور آسڑیا سمیت 14اراکین نے قراداد کی مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ 45ارکان بشمول جرمنی ، اٹلی ، اور برطانیہ غیر حاضر رہے۔ یہ حقیقت پوری طرح واضح ہے کہ عالمی برادری کی بھاری اکثریت اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کے موقف کو درست سمجھتی ہے ۔ تاہم یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ اقوام عالم کی بھاری اکثریت یعنی 195ملکوں کی نمائندگی رکھنے والی جنرل اسمبلی کی قراردادیں نان بائنڈنگ ہوتی ہیں۔
ترک صدر جناب طیب اردوان نے غزہ پر و حشیانہ بمباری پر اسرائیل کی برملا حمایت کرنے یا خاموش تماشائی بنے رہنے والے ممالک کے دوہرے معیار پر سخت تنقید کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ اگر مغرب ایک بار پھر صلیب اور ہلال کی جنگ چاہتا ہے تو اسے جان لینا چاہیے کہ ہم ابھی زندہ ہیں ۔ ہم پوری دنیا کو بتائیں گے کہ اسرائیل جنگی مجرم ہے ۔ اسرائیلی مظالم میںمرکزی مجرم مغربی طاقتیں ہیں، انکی حمایت کے بغیر اسرائیل یہ کچھ نہیں کر سکتا ۔ انہوں نے اسرائیل کے اتحادیوں پر الزام لگایا کہ وہ صلیبی جنگ کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔1947میں فلسطین کیا تھا اور آج کیا ہے؟ اسرائیل وہاں کیسے آیا؟ اسرائیل غاصب ہے، جنگی مجرم ہے ، غزہ میں بدترین جارحیت جاری ہے، اور کتنے بچے اور بوڑھے مریں گے تو جنگ بندی کی جائے گی؟
اسرائیلی وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ وہ غز ہ پر پوری طاقت کے ساتھ حملہ جاری رکھیں گے۔ انہوں نے امریکا سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے حوالے سے کسی دباؤ کے سامنے نہ جھکے۔ ہم اپنے لیے امریکی فوجی حمایت کو سراہتے ہیں۔ حزب اللہ کو غلطی کرنے اور جنگ میں داخل ہونے سے خبردار کیا گیا تاہم تمام محاذوں خاص طور پر شمالی محاذ پر آگے بڑھنے کیلئے وہ تیارتھے۔ علاوہ از یںفلسطینیوں کی حمایت میںاحتجاج کیلئے دنیا بھر میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ مظاہرین نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور فوری جنگ بند ی کا مطالبہ کیا۔ مظلوم مسلمانوں پر جاری اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں میں تیرا ہزار سے زیادہ شہریوں کی شہادتوں اور بے اندازہ تباہی کے بعد 57مسلم ملکوں کی تنظیم OIC اور عرب ممالک کا مشترکہ غیر معمولی اجلاس سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقدہوا۔ توقع تھی کہ مسلم سر براہانِ مملکت اسرائیل کو فوری جنگ بندی پر مجبور کرنے کیلئے موثر اقدامات کا فیصلہ کریں گے لیکن اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور مسئلے کے فوری حل کا محض زبانی مطالبہ کیاگیا اور کسی بھی فیصلے سے گریز کی راہ اختیار کی گئی ۔ جو نہایت مایوس کن ہے ۔
غزہ میں صورتحال یہ رہی کہ الشفا ہسپتال ایندھن، ادویات اور بنیادی سہولیات سے محروم ہو گیا۔ الشفا ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کے باعث 50بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہسپتال بند ہونے سے سینکڑوں مریضوں کی زندگی کو ابھی تک خطرات لاحق ہیں۔ اسرائیل نے الشفا ہسپتال اور انڈونیشیا ہسپتال پر فاسفورس بم گرائے ، غزہ کے 35میں سے 21ہسپتال مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں ۔ اسرائیلی فوج نے العودہ ،القدس ہسپتال کو بھی گھیر رکھا ہے۔ حالانکہ مسلم ممالک کم ازکم باہمی تجارت میں ڈالر کا استعمال بند کر کے اسرائیل کے سر پر ست اعظم امریکہ کو مشکل سے دو چار کر کے غز ہ میں فوری جنگ بندی اور دور یاستی حل کیلئے فیصلہ کن اقدام پر امادہ کر سکتے ہیں۔
OIC نصف صدی سے زیادہ عرصہ گززنے کے باوجود غیر موثر ہے۔ جب تک مسلم دنیا کی طرف سے طاغوتی قوتوں کے خلاف متحد ہو کر اعلیٰ حکمت عملی کے تحت اقدامات نہیں کیے جائیںگے اسرائیلی دہشت گردی کو نہیں روکا جاسکتا۔