• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں ڈیفنس لاہور میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا ،جب ایک نو عمر لڑکے نے انتہائی تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے اپنی گاڑی دوسری کار میں دے ماری جس سے ایک ہی فیملی کے چھ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعے کے بعد صوبائی انتظامیہ اور پولیس نے روایتی مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف حادثے کا ذمہ دارکو گرفتار کیا بلکہ پورے شہر سے سینکڑوں نو عمر موٹر سائیکل چلانے والے گرفتار کر لیے جبکہ ہزاروں لوگوں کے چالان ہوئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ انتظامیہ نے موٹر سائیکل رکشہ (چنگ چی) پر بھی بغیر رجسٹریشن سڑک پر آنے پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ جس سے غریبوں کی سواری کا واحد ذریعہ بھی ختم ہو جائے گا۔ رجسٹریشن اور لائسینسنگ اتھارٹی کو چاہیے کہ اس کے طریقہ کار کو آسان بناتے ہوئے مختلف مقامات پر عارضی سینٹر بنا کر عبوری لائسنس و رجسٹریشن جاری کیے جائیں تا کہ اسکول کالج اور ملازمتوں پر جانے والوں کو پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سڑکوں پر موٹر سائیکلوں پر ریس لگاتے اور ون ویلنگ کرتے بچے اکثر حادثے کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جبکہ پکڑے جانے والے سفارشوں یا دوسرے ذرائع استعمال کر کے قانون کی گرفت سے آزاد ہو کر دوبارہ سڑکوں پر آجاتے ہیں۔ ایسے جرائم میںپکڑے جانے والوں کی موٹر سائیکل پہلی دفعہ ایک ماہ کے لیے تھانے میں بند کر دینی چاہیے اور دوبارہ جرم کرنے پر مدت بڑھا دی جانی چاہیے اور اس عمل میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ گزرے وقتوں میں ہمارے شہروں قصبوں میں گھوڑا گاڑی اور گدھا گاڑی کی دوڑیں ہوتی تھیں جنہیں دیکھنے دور دور سے شوقین لوگ آتے تھے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں خصوصی ٹریک بنائے گئے ہیں جہاں ریس لگانے والی گاڑیاں تمام حفاظتی اقدامات کے ساتھ دوڑتی ہیں جبکہ ہمارے ملک میں امیر زادے یہ شوق سڑکوں پر دوسروں کی جانیں خطرے میں ڈال کر پورا کرتے ہیں اور کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ خطرناک طریقے سے قیمتی گاڑیاں چلاتے اور خواتین کو ہراساں کرتے بگڑے رئیس زادوں کو کوئی شہری روکنے یا سمجھانے کی کوشش کرے تو اخلاقیات سے عاری یہ لوگ بدتمیزی اور تشدد پر اتر آتے ہیں۔ چند ماہ قبل لاہور کے ایک جدید پررونق شاپنگ سینٹر کے باہر ٹریفک کنٹرول کرنے والے سکیورٹی گارڈ نے ون وے کی خلاف ورزی پر ایک بڑی گاڑی کو روکا تو گاڑی میں سوار مسلح افراد نے اس گارڈ کو سر عام تشدد کا نشانہ بنایا، اس واقعے کی تشہیر شوشل میڈیا پر نہ ہوتی تو شاید کوئی ایکشن بھی نہ ہوتا۔نیلی بتی اور ریوالونگ لائٹیں صرف پولیس کی سرکاری گاڑیوں پر لگانے کی قانون میں اجازت ہے مگر اکثر دوسرے سرکاری محکموں کی گاڑیوں، افسران کی پرائیویٹ گاڑیوں اور صاحب حیثیت و طاقت ورلوگوں کی گاڑیوں پر بھی یہ سرخ نیلی لائٹیں نظر آتی ہیں۔ سبز نمبر پلیٹ سرکاری گاڑیوں کے لیے مختص ہے مگر کئی افسران نجی گاڑیوں پر سبز نمبر پلیٹ لگا کر اور بعض شہری اپنے پروفیشنز کی پلیٹس آویزاں کر کے ٹریفک قوانین کو ٹائروں تلے روندتے نظر آتے ہیں اور انہیں اگر روکا جائے تو کسی بھی کارروائی سے پہلے اعلیٰ افسران کا تحکمانہ فون آجاتا ہے۔ ماضی میں سرکاری افسران اور اہلکار ایماندار ، فرض شناس ، بے خوف اور ہمدرد ہوتے تھے جو نتائج کی پروا کیے بغیر غلط احکامات اور ناجائز سفارشوں کو رد کر دیتے تھے اور جائز اور میرٹ پر آنیوالے کاموں پر ڈٹ جایا کرتے تھے۔ کرپٹ افسران اور ناجائز ذرائع سے دولت کمانے والے معاشرے میں اچھے نہیں سمجھے جاتے تھے۔ اب یہ حالات ہیں کہ ایمانداری اور اصول پرستی کی راہ پر چلنے والا شخص کسی اہم عہدے کیلئے غیر موزوں تصور کیا جاتا ہے۔ تقرریوں اور تعیناتیوں میں میرٹ کی پامالی اور سیاسی مداخلت نے پورے سسٹم کو برباد کر دیا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں پولیس سارجنٹ کو دیکھ کر گھگھی بندھ جاتی تھی کیونکہ وہ چالان کیے بغیر نہیں چھوڑتے تھے اور اب یہ حالت ہے کہ بڑی گاڑی کے کاغذ چیک کرنے کیلئے ٹریفک پولیس اور ایکسائز کے عملے کے ساتھ ٹی وی چینل کی کیمرہ ٹیم کھڑی ہوتی ہے مگر لوگ بدتمیزی سے باز نہیں آتے۔ نام ونمود، شہرت اور پروٹوکول کے شوقین مراعات یافتہ طبقے کے افراد جب دنیا کے دوسرے ممالک میںجاتے ہیں تو عام مسافروں کی طرح لائن میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اور تلاشی کے دوران اپنے جوتے تک خاموشی سے اتار رہے ہوتے ہیں۔ برطانیہ کی بھارتی نژاد متنازع ہوم منسٹر سویلا برورمین نے اپنے ماتحت لندن کے پولیس کمشنر کو فلسطین کے حق میں ہونے والی ریلی روکنے کا حکم دیا تو کمشنر نے جواب میں کہا ’’ہمارا قانون پر امن ریلی کو روکے جانے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘ اگر اس پولیس کمشنر کو اپنے عہدے یا کیریئر کی فکر ہوتی وہ بلا تامل اپنی باس کے احکامات بجا لاتا۔ دو روز قبل مین ہٹن نیو یارک میں سابق صدر کے نیشنل سکیورٹی کونسل کے چیف نے حلال فوڈ کی ریڑھی پر کام کرنیوالے غریب مسلمان کو نسلی تعصب کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے لیگل اسٹیٹس ، اس کے مذہب اور فلسطینی بچوں کے متعلق نفرت انگیز گفتگو کی تو ویڈیو ثبوت سامنے آنے پر مقامی پولیس نے اسے بلا توقف گرفتار کر لیا۔ ہمارے انحطاط پذیر معاشرے کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے جس میں قانون کی حکمرانی ہو، ریاست میں بسنے والے ہر شہری کی ضروریات اور حقوق پورے ہوں اور وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو تبھی ہم دنیا میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین