دبئی ائیرپورٹ بلا شبہ دنیا کے حسین اور صاف ستھرے ترین ائیرپورٹس میں ایک ہے۔مگراس میں ایک بہت بڑی قباحت یہ ہے کہ اس کی غیر ضروری لمبائی چوڑائی کے سبب بیچارہ مسافر پیدل چل چل کر قریب مرگ ہو جاتا ہے۔ ائیر پورٹ سے باہر نکلتے ہی دبئی کی سڑکوں پر تعمیر و ترقی کا سلسلہ تا حد نظر پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ آج سے چار پانچ سال پہلے اقتصادی ڈپریشن کی جس لہر نے پورے مشرق وسطی کو بالعموم اور دبئی کو بالخصوص اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ لگتا ہے اب کافی حد تک دم توڑ چکی ہے۔ کم از کم دبئی کے حالات و واقعات سے تو یہی لگتا ہے کہ یہاں کا حکمران ایک بہت اچھا کپتان ہے۔ جس نے بالآخر اپنی معیشت کو شدید بحران سے نکال لیا ہے۔ چھ برس بعد منعقد ہونے والی شہرہ آفاق کاروباری نمائش ایکسپو 2020ءکے حقوق حاصل کر کے دبئی میں اپنی معیشت کو جم سٹارٹ دے دیا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے یہاں گھروں اور دوکانوں کے کرائے دیکھتے ہی دیکھتے 30 فیصد اوپر چلے گئے ہیں۔ ایکسپو 2020ء کو مد نظر رکھتے ہوئے جبل علی کی بندرگاہ کے قریب ایک نیا شہر آباد کیا جا رہا ہے۔ جس سے دبئی کا بوجھ کافی حد تک ہلکا ہو جائے گا۔
پیشہ ورانہ وجوہات کے باعث ہمارا دبئی آنا جانا لگا ہی رہتا ہے بلکہ پچھلے چند مہینوں میں تو یہاں ہماری آمدور فت کچھ اس قدر رہی کہ اب تو امارت ائیر لائن کا عملہ ہمارے ساتھ تھوڑا بہت ’’جگت پانی‘‘ بھی کر لیتا ہے۔ حتیٰ کہ ائیرپورٹ کے آس پاس ڈیوٹی پر تعینات شرطے بھی اب نہایت مانوس نظروں سے ہماری آئو بھگت کرتے ہیں۔ یہ احباب یا تو ہمیں کوئی نامی گرامی سمگلر سمجھتے ہیں اور یا پھر جاسوس کیونکہ ائیرپورٹ سے لیکر ہوٹل تک ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی ’’آماڈا ‘‘کا ہمارے پیچھے پیچھے آنا اور نہایت ادب کے ساتھ ہماری گاڑی کے قریب کھڑے ہونا اور پھر اس میں سے ایک دراز قد ’’دہوش صفت‘‘شرطے کا باہر نکلنا اور ہمارے ساتھ باقاعدہ معانقہ نما ایک مختصر مگر پر اسرار سی حرکت کرنا بڑا معنی خیز تھا۔پہلے تو ہم سمجھے کہ ہماری تلاشی لے رہا ہے۔مگر پھر انتہائی پرتپاک لہجے میں گو یا ہوا کہ ہم آپ کو اکثر دیکھتے ہیں۔شرطے کی اردو شیخ رشید کی انگریزی سے مماثلت رکھتی تھی کہ نہایت بے سروپا ہونے کے باوجود مدعا کافی حد تک بیان کر دیتی تھی۔ ہم نے بھی خوش مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ جی ہاں آج کل ہم اکثر دبئی آتے جاتے ہیں اور قسم اللہ پاک کی ہم نہ تو جاسوس ہیں اور نہ ہی سمگلر ہماری بات کو جگت سمجھ کر وہ بیچارا یوں ہنسنے لگا جیسے رمیض راجہ ہاتھ میں مائیک پکڑ کر ہر بے تکی اور پھیکی بات پر ’’زاروقطار ‘‘ہنسنے لگتا ہے ۔ رمیض راجہ بطور کرکٹر تو خیر گزارا کر لیتا تھا۔ مگر اس کی اینکری کا تو بیڑہ ہی غرق ہے۔
شرطے کو ہنستا دیکھ کر گھڑی بھر کیلئے ہمیں احساس تو ہوا کہ کہیں یہ کم نصیب ہمارا ٹی وی شو تو نہیں دیکھتا۔ مگر پھر دوسرے ہی لمحے خیال آیا کہ یہ تو انگریزی سمجھنے سے قاصر ہے۔ بھلا اردو اور پنجابی کیسے سمجھتا ہو گا؟ تاہم ہمارے بھارتی نژاد ڈرائیور کی رائے اس کے برعکس تھی۔اس کا کہنا تھا کہ یہ احباب بھارتی اور پاکستانی چینلز دیکھتے ضرور ہیں۔ بھلے سے سمجھ آئے نہ آئے۔ بہر حال ڈرائیور کی بات کو یکسر نظر انداز کر کے ہم ہوٹل کے اندر تو چلے گئے۔ مگر آج بھی سوچتے یہی ہیں کہ شرطہ ہمیں آخر اکثر کہاں پر دیکھتا ہے۔ اگر ائیر پورٹ سے نکلتے یا آتے جاتے دیکھتا ہے تو یہ کون سی اہم بات ہے۔ کچھ لوگ روزانہ کے حساب سے دبئی آتے جاتے ہیں۔ آس پاس کی خلیجی ریاستوں سے اور سب سے حیران کن بات یہ کہ سیاہ شیشوں والی آرماڈا ہمارا تعاقب کیوں کرتی رہی؟
دبئی کی دلکش سڑکوں پر گھومتے ہوئے ہمیں پہلے تو صرف یہ ڈپریشن ہوا کرتا تھا کہ ہمارا اپنا ملک پاکستان اس قدر پسماندہ کیوں ہے۔ کیا ہم کبھی ترقی نہیں کریں گے۔ ہماری جہالت اور کرپشن کب ہماری جان چھوڑے گی وغیرہ وغیرہ ہم اس مرتبہ ہمارے ایک اور ڈپریشن کا سامنا تھا۔ اور وہ تھی آرٹسٹ ، سنگر اور ڈانسر کے نام پر پاکستانی نوجوان لڑکیوں کی ہیومن ٹریفکنگ ۔ آپ کو یہ جان کر انتہائی افسوس ہو گا کہ درمیانے درجے کے ہوٹل جس کے نوے فیصد مالکان بھارتی نژاد ہیں، پاکستانی لڑکیوں کو نہ صرف سر عام نچواتے ہیں بلکہ ان سے جسم فروشی تک کرواتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ دھندا بھارتی، بنگلہ دیشی اور نیپالی خواتین و پروموٹرز کی وجہ سے مشہور تھا، مگر ان تمام ممالک کی حکومتوں نے اس ذلالت کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اپنی خواتین کو طائفوں اور گروپوں کےساتھ آنے جانے سے منع کر دیا ہے اور اب ان کی خواتین کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ مگر آفرین ہے پاکستانی حکومت اور ہمارے دفتر خارجہ پر کہ اس حوالے سے ان کی کان ناک ، یا کسی اور مقام پر جوں تک نہیں رینگی اور یوں پاکستان کی عزت صبح و شام نیلام ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تحقیقات کرنے والے احباب اس حوالے سے ہوٹل یوریکا اور اس کے آس پاس کا جائزہ ضرور لیں۔
نواز شریف صاحب آپ کو سوچ بچار و دیگر مصروفیات سے فرصت ملےتو تھوڑا دھیان ادھربھی دیں، ہیں جی ؟