• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند ہفتے قبل‘ کینیڈا میں مقیم میرے ایک شناسا خاندان کو اپنے والد کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اچانک پاکستان جانا پڑ گیا۔ اُن کے والد بھی اپنے باقی خاندان کے ساتھ کینیڈا میں ہی رہتے ہیں‘ لیکن ان دنوں وہ پاکستان گئے ہوئے تھے جہاں وہ زیادہ ہی علیل ہو گئے۔ کینیڈا میں مقیم اُن کے بچوں نے جب والد کے پاس پاکستان جانے کے لیے چند روز بعد کے ٹکٹ بُک کروا لیے تو انہیں علم ہوا کہ ان کے دونوں بچوں کے پاسپورٹ ایکسپائر ہو چکے ہیں۔ یہ معاملہ زیادہ پیچیدہ اس لیے بھی ہو گیا کہ اُن کے ایک بیٹے کی شہریت پاکستانی تھی اور دوسرے کی کینیڈین۔

پاکستان سے اُن دنوں یہ خبریں آ رہی تھیں کہ پاسپورٹ کے لیمینیشن پیپر کی قلت کی وجہ سے نئے پاسپورٹ کے اجرا میں مہینوں کی تاخیر ہو رہی ہے۔ اسی دوران انہوں نے مجھے فون کرکے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ پہلے تو مجھے یہ لگا کہ وہ شاید پاکستانی پاسپورٹ کی وجہ سے پریشان ہیں لیکن بعدمیں انکشاف ہوا کہ انہیں اصل پریشانی کینیڈین پاسپورٹ کی تھی۔جب میں نے انہیں بتایا کہ پاکستان میں نئے پاسپورٹ کے اجرا میں لیمینیشن پیپر کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ کسی ہنگامی صورتحال میں ہوم کنٹری جانے کیلئے پاکستان کا ہائی کمیشن پاسپورٹ کی تاریخِ تنسیخ میں توسیع کر دیتا ہے ‘اُس کی ہمیں کوئی فکر نہیں لیکن کینیڈین پاسپورٹ کا کیا ہوگا۔ میں نے اُن کی پریشانی کے پیش نظر کینیڈا کے نئے پاسپورٹ کے حصول کے حوالے سے آن لائن سرچ کیا تو متعلقہ ویب سائٹ پر لکھا ہوا تھا کہ ایسے افراد جن کے پاسپورٹ کے تاریخِ تنسیخ قریب آ رہی ہے اور وہ آئندہ چند روز تک سفر کرنے کے خواہاں ہیں تو اپنے ٹکٹ کی کاپی نئے پاسپورٹ کے اجرا کی درخواست کے ساتھ پاسپورٹ دفتر میں جمع کروا دیں اور اگلے روز آپ کو کچھ اضافی واجبات کی ادائیگی کے ساتھ نیا پاسپورٹ مل جائے گا۔ مجھے لگا کہ میرے یہ سب بتانے پر بھی اُن کی پریشانی دور نہیں ہو سکی۔ اگلے دن جب انہوں نے کینیڈین پاسپورٹ دفتر میں ٹکٹ کی کاپی کے ساتھ نئے پاسپورٹ کے اجراکی درخواست دی تو متعلقہ عملے نے انہیں بتایا کہ وہ کل آ کر اپنا پاسپورٹ لے لیں کیونکہ آپ کی چار دن بعد کی ٹکٹ ہے اور آپ کو پاسپورٹ کی وجہ سے کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑے۔ اُنہیں لگا کہ جیسے اُن کا سارا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد وہ سیدھا پاکستان ہائی کمیشن ٹورنٹو گئے تاکہ اپنے دوسرے بچے کے پاسپورٹ کی مدتِ تنسیخ میں توسیع کروا سکیں۔

پاکستان کی افسر شاہی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ایک چھوٹا سا پاکستان بنا ہی لیتی ہے۔ جس ہوم کنٹری جانے کیلئے وہ یہ سب تگ و دو کر رہے تھے اُس کے ہائی کمیشن میں سب سے پہلے تو اُن سے اِس لیے اُلجھ کے بات کی گئی وہ اپائنٹمنٹ کے بغیر یہاں کیوں چلے آئے۔ بالآخر جب اُنہوں نے عملے کے سامنے اپنا مدعا پیش کیا تو انہیں یہ جواب ملا کہ آپ کو کسی ہنگامی صورتحال یا بیماری کاسامنا نہیں ہے بلکہ آپ صرف اس لیے پاسپورٹ کی تاریخِ تنسیخ میں توسیع کروانا چاہتے ہیں تاکہ آپ کا ٹکٹ ضائع نہ ہو جبکہ اُنکا ٹکٹ تو قابلِ واپسی تھا۔ پھر انہیں کہا گیا کہ آپ پہلے پاکستان سے اپنے والد کی میڈیکل رپورٹس منگوائیں اُس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ کیا ہو سکتا ہے۔ پاکستانی ہائی کمیشن پہنچنے کی دیر تھی کہ اُن کا ایڈوانس ٹکٹ لینا بھی جرم بن گیا۔ اُن کے والد کی بیماری پر بھی سوال و جواب ہونے لگے۔ اور وہ ہوم کنٹری جس پر وہ فخر کر رہے تھے‘ جس سے اُن کی محبت کا یہ عالم ہے کہ اُنہوں نے سات‘ آٹھ سال سے کینیڈا میں رہتے ہوئے بھی یہاں کا پاسپورٹ اپلائی نہیں کیا‘ حالانکہ اُن کے بس اپلائی کرنے کی دیر ہے اور انہیں بلاتاخیر کینیڈین پاسپورٹ مل سکتا ہے‘ وہ آج اپنے ملک ہی نہیں جا پا رہے تھے۔ اُنہیں ہنگامی صورتحال کے باوجود یہ کہا گیا کہ ہم آپ کے پاسپورٹ کی تاریخِ تنسیخ میں توسیع نہیں کر سکتے‘ حالانکہ اس کی قانوناً گنجائش موجود ہے اور اگر آپ نئے پاسپورٹ کیلئے بھی درخواست دیتے ہیں تو اُس میں سے تین سے چار ہفتے کاوقت لگ سکتا ہے۔ اُنہوں نے جب یہ ساری معلومات بتانے والے سٹاف کا نام پوچھا تو اُس نے اپنا نام بتانے سے ہی انکار کر دیا۔ میری پاکستانی ہائی کمیشن ٹورنٹو میں تھوڑی بہت واقفیت تھی۔ جب میں نے وہاں کال کی اور اپنے جاننے والے کے سامنے سارا مسئلہ بیان کیا تو پتا چلا کہ اُس خاندان کی میرے اس جاننے والے سے ہی بات ہوئی تھی۔ اُس نے مجھے بتایا کہ اگر ان کے والد صاحب بیمار ہوتے تو یہ ایڈوانس ٹکٹ کیوں بُک کرواتے‘ ان کا مسئلہ ان کے والد کی بیماری نہیں بلکہ یہ ہے کہ ان کا ٹکٹ ضائع نہ ہو جائے۔ میں حیران ہوا کہ بیوروکریٹ کس طرح حقیقت جانے بغیر خود ہی جج بنا بیٹھا ہے۔ اُس نے اُس خاندان کی پریشانی محسوس کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جسے ہنگامی حالت میں سفر درپیش تھا۔ اگلے روز کینیڈین پاسپورٹ لینے کے بعد جب پاکستان سے ایک بااثر شخصیت کا پاکستان ہائی کمیشن ٹورنٹو میں فون کروایا تو وہی ہائی کمیشن جو ایک روز پہلے تک اُن کے پاسپورٹ کی تاریخِ تنسیخ میں توسیع کرنے کو تیار نہیں تھا اُس نے فوراً اُن کے پاسپورٹ کی مدت میں توسیع کر دی۔

ایک طرف کینیڈا کا پاسپورٹ دفتر تھا جس کے عملے نے ٹکٹ دیکھنے کے بعد ایک ہی روز میں نیا پاسپورٹ بنا دیا تھا تاکہ اُنکا ٹکٹ ضائع نہ ہو جائے تو دوسری طرف پاکستانی ہائی کمیشن تھا جس نے پہلے اُن کے باپ کی بیماری پر سوال اٹھایا‘ پھر نجانے کیا کیا تاویلات پیش کیں اور پھر ایک فون پر ہی پاسپورٹ کی تاریخِ تنسیخ میں توسیع بھی کر دی ۔ حالانکہ ہائی کمیشن پاکستان میں پاسپورٹ کی اشاعت کے لیے لیمینیشن پیپر کی قلت کے مسئلے سے بھی آگاہ تھا‘ اس صورتحال میں لوگوں کے پاسپورٹ میں توسیع کرکے اُن کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے یہ سارا ڈرامہ رچایا گیا۔ ایسے واقعات پر افسوس تو ہوتا ہی ہے لیکن زیادہ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ اپنے جائز اور قانونی کام کیلئےبھی ہائی کمیشن تک میں سفارش کی ضرورت پڑتی ہے‘ مجھے اب پورا یقین ہے کہ وہ خاندان جس نے برسوں سے کینیڈا کی شہریت نہیں لی‘ اب واپس آکر کینیڈا کی شہریت اپلائی کر دے گا تاکہ ان ہی کے الفاظ میں ان لوگوں سے تو آئندہ واسطہ نہ پڑے ۔ کیونکہ خدانخواستہ اگر انہیں مستقبل میں بھی کسی ایسی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کینیڈین پاسپورٹ کا دفتر ہی اُن کے کام آئے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین