• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں قیام امن کے لئے حکومت اور طالبان کی قائم کردہ کمیٹیوں کے مابین رابطوں کا معاملہ مشکلات کا شکار ہو گیا ہے۔منگل کو دونوں کمیٹیوں کے ارکان کی ملاقات ہونا تھی مگریہ ایک دن کیلئے ملتوی ہوگئی ہے۔ تاہم وزیراعظم نواز شریف نے مذاکراتی عمل کے اس مرحلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے لاہور میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کا معاملہ تسلی بخش انداز میں آگے بڑھ رہا ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں خون خرابے کے بغیر امن چاہتے ہیں اور مذاکرات کے سوا کوئی دوسرا آپشن ان کے زیر غور نہیں اب گیند طالبان کی کورٹ میں ہے ان کی جانب سے شرائط سامنے آئیں تو ان پر ہر سطح پر غور ہو گا وزیراعظم کے اس امید افزا بیان کے پہلو بہ پہلو طالبان کا یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ انہیں حکومت پر مکمل اعتماد نہیں اسی لئے انہوں نے حکومتی کمیٹی سے بات چیت کے لئے اپنے نمائندوں کی بجائے علماء اور سیاسی رہنمائوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی طالبان کے ترجمان کے مطابق انہیں خطرہ ہے کہ حکومت ماضی کی طرح اب بھی شاید ہمارے نمائندوں کو گرفتار نہ کرلے بداعتمادی کی اس فضا میں ایک ہلکا سا ارتعاش اس وقت بھی پیدا ہوا جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جمعیت علماء اسلام (ف)نے طالبان کی کمیٹی میں اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر شامل ہونے سے انکار کر دیا طالبان نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا ہے مبصرین کا خیال ہے کہ اس سے طالبان کی حکمت عملی پر تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا لیکن مذاکراتی عمل غیر ضروری تاخیر کا شکار ہو سکتا ہے دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کی بحالی کیلئے حکومت اور طالبان میں پہلے بھی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ بات چیت ہوتی رہی ہے اور اس مقصد کیلئے کمیٹیاں بھی بنتی رہی ہیں لیکن باہمی اعتماد کے فقدان کے باعث معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا ۔اس مرتبہ اگرچہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ سنجیدگی نظر آ رہی ہے مگر مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کے حوالے سے اندیشے اور وسوسے پوری طرح تحلیل نہیں ہوئے سب سے بڑا مسئلہ تو دونوں طرف سے مکمل فائر بندی کا ہے اتوار کو پشاور میں ہونے والے دھماکوں کے علاوہ پیر کو جنوبی وزیرستان میں فورسز پر حملے بھی ہوئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ شدت پسندوں کے بعض گروپ اپنے طور پر یا طالبان قیادت سے کوئی واضح ہدایت نہ ملنے کی وجہ سے ابھی تک سرگرم عمل ہیں حالانکہ شمالی وزیرستان میں فضائیہ یا فوج کے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی جانب سے کسی کارروائی کی اطلاع موصول نہیں ہوئی یہ پتہ بھی چلایا جا رہا ہے کہ کوئی تیسرا فریق مذاکرات کو ناکام بنانے کیلئے تو یہ کارروائیاں نہیں کر رہا پھر طالبان کی شرائط بھی مذاکرات کی کامیابی کے آڑے آ سکتی ہیں طالبان ترجمان کے مطابق ان کے اصل نمائندوں پر مشتمل نو رکنی کمیٹی ایک دو روز میں ان کی سیاسی کمیٹی کے ارکان سے ملاقات کرے گی جس میں حکومت کو پیش کرنے کے لئے طالبان کی شرائط رکھی جائیں گی یہ شرائط کیا ہوں گی ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں لیکن میڈیا میں جن شرائط کا ذکر ہوتا رہا ہے ان میں دہشت گردی میں پکڑے گئے طالبان قیدیوں کی رہائی، شریعت کا نفاذ، قبائلی علاقوں سے فوجوں کا انخلاء اور طالبان کے جانی نقصانات کے معاوضے کی ادائیگی سرفہرست ہیں یہ ایسے معاملات ہیں جو گہرے غور و فکر کے متقاضی ہیں شریعت کا نفاذ تو آئینی معاملہ ہے اسے آئینی طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے جہاں تک دوسرے معاملات کا تعلق ہے تو یہ بھی کوئی یک طرفہ مسئلہ نہیں طالبان کو بھی لاتعداد بے گناہ شہریوں کے جانی اتلاف اور یرغمال بنائے جانے والے لوگوں کا حساب دینا ہے مذاکرات کی میز پر یہ سب باتیں کھل کر سامنے آئیں گی جن پر افہام و تفہیم کے جذبے سے غور کرنے کی ضرورت ہو گی توقع کی جانی چاہئے کہ بات چیت کے ذریعے ملک میں خون خرابہ روکنے پر اتفاق ہو جائے گا خون بے گناہ شہریوں اور فوجیوںکا ہو یا طالبان کا یہ پاکستانیوں کا خون ہے اسے ہر قیمت پر بہنے سے روکنا چاہئے دنیا میں شدت پسندوں نے جہاں جہاں جنگیں لڑیں بالآخر انہیں مذاکرات کے ذریعے ہی امن کا راستہ اختیار کرنا پڑا امن اس وقت پاکستان اور اس کے عوام کی سب سے بڑی ضرورت ہے وزیراعظم نے درست کہا کہ اس خطے اور دنیا کا مفاد امن میں ہے امن ہو گا تو ترقی اور خوشحالی ہو گی مذاکرات کے تمام فریقوں کو یہی نصب العین سامنے رکھ کر خلوص اور نیک نیتی سے پیش قدمی کرنی چاہئے۔

غیر قانونی اقدام کی اجازت نہیں
سپریم کورٹ نے منگل کے روز لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران ڈائریکٹر لیگل وزارت دفاع کی جانب سے بار بار نئی تاریخ لینے اور عدالت میں دیر سے حاضر ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کے لئے 17 فروری کو سیکرٹری وزارت دفاع کو بذات خود پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ حکومت اور اس کے حساس ادارے جان لیں کہ کسی غیر قانونی اقدام کی اجازت نہیں دیں گے ۔
ملک کے مختلف حصوں اور خاص طور پر بلوچستان سے پراسرار طور پر غائب ہوجانے والوں کا مسئلہ نہ صرف ان افراد کے لواحقین، عزیزوں اور دوستوں بلکہ انسانی حقوق کی پاسداری اور تحفظ کے لئے کام کرنے والے اداروں اور افراد کے لئے بھی سخت تشویش کا موجب بنا ہوا ہے۔ تعجب خیز امر یہ بھی ہے کہ انہی لاپتہ افراد میں سے بعض افراد کی لاشیں بھی تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد مختلف مقامات سے ملتی رہی ہیں اور ابھی چند روز پہلے توتک سے 13افراد کی جو مسخ شدہ لاشیں ایک اجتماعی قبر سے ملی ہیں ان کے بارے میںبھی کہا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ لاشیں لاپتہ افراد کی ہیں۔ یہ لاشیں کون پھینکتا ہے اور اس کام میں کون سے گروہ ،تنظیمیں یا ادارے ملوث ہیں اس کا کھوج لگایا جانا چاہئے۔ مختلف ممالک میں سیکورٹی ادارے جرائم میں ملوث افراد کو اٹھا کر مختلف حراستی مراکز میں رکھتے اور ان سے معلومات حاصل کرتے ہیں لیکن ان کے اہل خانہ کو اس بارے میں باضابطہ طور مطلع کیا جاتا ہے۔ ان کو غیر قانونی طور پر برسوں پس دیوار زنداں رکھنے یا تشدد کرکے ختم کرکے ان کی لاشیں کسی ویران جگہ پر پھینک دینا بھی وہاں کسی کے حاشیہ خیال تک میں نہیں آسکتا اور ایک ایسے ملک میں جو اپنے آپ کو مسلم ممالک کے لئے ماڈل ریاست کے طور پر پیش کرنے کا خواہاں ہو، اس میں تو اس قسم کے کسی غیر قانونی اقدام کا کوئی جواز ہی موجود نہیں ۔عدالت عظمیٰ جس محنت ،تندہی اور تسلسل کے ساتھ لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کررہی ہے اس سے توقع ہے کہ ملک میں اس نوع کے غیر قانونی اقدامات کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائیگا اور اس میں ملوث لوگ اپنی سزا سے بھی نہیں بچ پائیں گے۔

تنازع کشمیر : منصفانہ حل ناگزیر
کشمیری عوام تقریباً سات دہائیوں سے اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔اسی حوالے سے آج پورے پاکستان میں اور عالمی سطح پر کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کا دن منایا جارہا ہے۔ کشمیری عوام کی جانب سے حق خوداختیاری کے مطالبے کو پوری عالمی برادری اقوام متحدہ کی قراردادوں کی شکل میں کم و بیش 66 سال پہلے تسلیم کرچکی اور انہیں ان کا یہ حق دلانے کی ضمانت دے چکی ہے۔1948ء میں بھارتی حکومت خود اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گئی تھی اور پوری عالمی برادری کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ کشمیری عوام مسلح جدوجہد ترک کرکے جنگ بندی پر تیار ہوجائیں تو اقوام متحدہ کے مبصرین کی نگرانی میں استصواب رائے کے ذریعے یہ فیصلہ کرسکیں گے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ لیکن بھارتی حکمراں اس یقین دہانی کو مسلسل ٹالتے رہے اور پھر انہوں نے سراسر بے انصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینا شروع کردیا۔ اس روئیے کی بناء پر کشمیری عوام نے دوبارہ مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا ۔بھارتی حکمراں پچھلے ڈھائی عشروں سے سات لاکھ سے زائد فوج کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن کشمیریوں کا جذبہ آزادی آج بھی پہلے دن کی طرح زندہ و بیدار ہے۔ اس تناظر میں بھارت کیلئے ہوشمندی کا راستہ اسکے سوا کچھ نہیں کہ وہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دینے کا وعدہ پورا کرے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ یہی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کا منصفانہ حل تلاش کرلیا جائے تو دونوں ملکوں کے جو خطیر وسائل جنگی اور دفاعی تیاریوں پر خرچ ہوتے ہیں انکا بڑا حصہ دونوں ملکوں کی 90 فی صد سے زیادہ غریب آبادی کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے پر صرف کیا جاسکے گا اور پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی ترقی اور خوش حالی کی راہ ہموار ہوجائیگی۔ لہٰذا دونوں ملکوں کی قیادتوں کو اس بارے میں یکسو ہو کر مزید تاخیر کے بغیر نیک نیتی کیساتھ قدم آگے بڑھانے چاہئیں اور عالمی برادری کو بھی اس معاملے میں اپنی ذمے داری پوری چاہئے۔
تازہ ترین