• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی سیاسی یا غیر سیاسی شخصیت کی ناقص کارکردگی پر قلم اٹھایا جائے تو ہر طرف سے دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں لیکن اگر اسکی کارکردگی کو سراہا جائے تو پھر’’ خوشامد اور مدح سرائی‘‘ کے طعنے سننا پڑتے ہیں۔ میں بہت کم لوگوں کی کارکردگی کا معترف ہوتا ہوں لہٰذا اسکا اعتراف کرنے میں بھی خاصی’’ کنجوسی ‘‘سے کام لیتا ہوں تاکہ خواہ مخواہ کی تنقید سے خود کو بچائے رکھوں لیکن میں راولپنڈی کی ایک شخصیت کے بارے میں ’’تعصب ‘‘ کا شکار ہوں ۔وہ ہے ڈاکٹر جمال ناصر ۔ان سے تعلق خاص ان کے والد نثار احمد نثار مرحوم سے زمانہ طالبعلمی سے قائم ہےجب میں او ر’’فرزند پاکستان ‘‘(دعویدار ) اکثر و بیشتر دارالعموم تعلیم القرآن راجہ بازار میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد صرافہ بازار میں نثار احمد نثار کی بیٹھک پر چائے نوشی کے بعد اگلی منزل کو روانہ ہو جاتے تھے، اس لحاظ سے سہارنپور کے اس خانوادے سے نصف صدی سے زائد کا تعلق ہے جو تادم تحریر قائم ہے،ڈاکٹر جمال ناصرنے دنوں میں نہیں برسوں کی محنت سے مقام حاصل کیا۔ڈاکٹر جمال ناصر نے مسلم لیگی خاندان میں آنکھ کھولی نثار احمد نثار تحریک پاکستان کے کارکن تھےمسلم لیگ (قیوم ) کے سیکریٹری جنرل تھے بی ڈی ممبر کی حیثیت سے1965ء کے صدارتی انتخاب میںمادر ملت فاطمہ جناح کے کاغذات نامزدگی میں بطور تجویز کنندہ تھے،ڈاکٹر جمال ناصر بھی کٹر مسلم لیگی ہیں لیکن ان کا ’’باغیانہ مزاج ‘‘ جاگیر دارانہ و سرمایہ دارانہ سیاست کو قبول نہیں کرتا ،جسکےباعث انہوں نے خود ہی اپنے کئی دشمن بنا لئے ۔یہی وجہ ہےکہ مسلم لیگ کے کسی دھڑے نے ان کو آگے نہ بڑھنےدیا ،بے پنا ہ صلاحیتوں کامالک ہونے کے باوجو د کسی مسلم لیگ نے ان کو ناظم شہر یا پارلیمنٹ کا رکن نہیں بنا یا، وہ راولپنڈی کی سیاست کا وہ تابندہ ستارہ ہے جو بیک وقت شہر کا مسیحا بھی ہے اورشہر کی سیاست کا نبض شناس بھی۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی ان پر نظر پڑی تو ان کو اپنی کابینہ میں شامل کر لیا اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور ڈاکٹر جمال ناصر کا انتخاب 90دن کی کابینہ کیلئے ہوا لیکن یہ حکومت 27جنوری 2023ء سے قائم ہے اور 8فروری 2024تک ہونے والے انتخابات کے انعقاد تک قائم رہے گی،ممکن ہے اس حکومت کو کچھ دن اور کام کرنے کا موقع مل جائے اس وقت تک ڈاکٹر جمال ناصر کو بہت کچھ کرنے کا موقع مل جائے گا البتہ انہوں نے چند ماہ میں پنجاب کی نگران حکومت میں اپنا سیاسی پرو فائل اس قدر بلند کر لیاہے جو سیاسی لوگ برسوں کی محنت و کاوش کے باوجود حا صل نہیں کر پاتے ،انہوں نے وزارت پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیرڈیپارٹمنٹ حکومت پنجاب میں شاندار کارکردگی کا ہمالہ کھڑا کر دیا ہے جو آنے والے کسی صوبائی وزیر کیلئے سر کرنا ممکن نہیں ہو گا ۔میں ڈاکٹر جمال ناصر کو 4 عشروں سے جانتا ہوں یہ انکے والد نثار احمد نثار کی سیاسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ وہ ایک مسیحا و سیاستدان بن گئے ہیں ، وہ جس کام کا بیڑہ اٹھاتے ہیں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں وہ لاہور میں ہونے کے باوجود راولپنڈی کی سماجی و سیاسی تقریبات کیلئے وقت نکال لیتے ہیں۔گزشتہ ہفتے،شادی کی ایک تقریب میں ان سے اچانک ملاقات ہو گئی انہوں نے گلے لگا لیا ایسے ملاقات کی جیسے برسوں بعد ملاقات ہوئی ہو۔ بلا شک و شبہ وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے دن رات کام کرنے کا ایک ریکارڈ قائم کیا ہے ڈاکٹر جمال ناصرانکی ٹیم کے متحرک رکن ہیں وہ مختصر مدت میں شاندار کارکردگی کے ریکارڈ قائم کر رہے ،وہ چار ماہ بعد وزارت چھوڑیں گے تاہم انکی کی خدمات تا دیر یادرکھی جائیں گی ۔ڈاکٹر صاحب خاصی دیر تک محو گفتگو رہے اس دوران انہوں نے اپنی وزارت کی اب تک کی کار کردگی پر مشتمل ایک کتابچہ پیش کیا جسکا مطالعہ کرتے ہوئے میں ورطہ حیرت میں ڈوب گیاکہ یہ سب کچھ اتنےمختصر عرصے میں کیونکر ممکن ہوا۔میں نے ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا تو انکی باتوں میںصداقت پائی۔یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوا کہ ان کو وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی طرف سے فری ہینڈ ملا ہوا تھا۔ڈاکٹر جمال ناصر نے نگران حکومت کے اس ٹورنامنٹ میں ’’مین آف ٹورنامنٹ ‘‘ کا اعزاز حاصل کر لیا ہے ۔سرکاری ہسپتال ہو یا غیر سرکاری ڈاکٹر صاحب ہر وقت مستحق افراد کی مدد کرتے نظر آتے ہیں ان کی ذاتی لیبارٹری میں آنے والے مستحق شخص کو مطلوبہ رقم نہ ہونے پر واپس نہیں بھیجا جاتا ،اسی لئے راولپنڈی کے لوگ انہیں مسیحا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے پنجاب کی 43 جیلوں کے 52 ہزار قیدیوں کے فری ہیپاٹائٹس، بی ،سی ،ایڈز ،ٹی بی، ذیابیطس اور خون کی کمی کے ٹیسٹ ،جنرل میڈیکل چیک اپ ،ویکسی نیشن اور مکمل علاج کرا یا ،ماضی میں ایسا ہو ا اور نہ ہی مستقبل میں کوئی کر دکھائے گا پنجاب کی جیلوںکیلئے ماضی میں 45 کروڑ روپے میں خریدے گئے طبی آلات جن کی اب مالیت ڈیڑھ ارب سے زائد ہے گزشتہ 8 ماہ سے ’’ کمیشن نہ ملنے کی وجہ سے ڈمپ پڑے تھے ان کو ہسپتالوں میں تقسیم کرایا گیا 3500 سے زائد ڈاکٹروں کو اگلے گریڈ میں ترقی دی گئی ، 1045 میڈیکل آفیسرز اورسپیشلسٹس کی اسامیاںتخلیق کی گئیں ، محکمہ صحت میں LHVs کی گریڈ 5 سے8 ، 1700 لیڈی ہیلتھ سپروائزرزکو گریڈ 8 سے گریڈ 12 اور گریڈ 14 میں ترقی دی گئی ، وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور ڈاکٹر جمال ناصر نے 6ماہ کے دوران جو کچھ کر دکھایا ہے وہ شاید 5 سال کی آئینی حکومت میں ممکن نہیں، اس کارکردگی کو ایک کالم میں سمیٹنا ممکن نہیں ۔وزیراعلیٰ پنجاب کی نگرانی میں ڈاکٹروں پیرا میڈیکل اسٹاف کے دیرینہ مسائل کے حل کیلئے انقلابی اقدامات کئے گئے پہلی بار BHU میں شام کو ویکسینیشن سینٹر کاآغاز کیاگیا ،ادویات کی تیاری میں کوالٹی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں 11 کروڑ روپے کی لاگت سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں میں طبی منصوبوں کا آغاز کیا گیا ہے، 10 کروڑروپے کی لاگت سے بے نظیر بھٹو ہسپتال میں OPD کی بہتری کے منصوبے کی منظوری دی گئی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین