کانگریس کے استعماری اور توسیع پسندانہ عزائم صرف ریاست جموں کشمیر، جوناگڑھ، حیدرآباد دکن، مناوادر اور بھوپال تک ہی محدود نہ تھے، بلکہ ہندوستان کی 25 سے زائد دیگر مسلم ریاستیں بھی کانگریس کے جارحانہ اور مسلم دشمن عزائم کا نشانہ بنیں۔ تاہم ریاست جموں کشمیر کا معاملہ ان تمام سے مختلف اور جدا تھا۔ یہ ریاست ہندوستان سے بالکل الگ اور پاکستان سے ملحق و متصل تھی بھارت کے پاس جموں کشمیر تک پہنچنے کا کوئی راستہ بھی نہ تھا ۔ ریاستوں کے پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا جو فارمولہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے کانگریس اور مسلم لیگ کی مشاورت سے وضع کیا ، اسکی رو سے ریاست کا الحاق صرف اور صرف پاکستان سے ہی ہوسکتا تھا۔ اہل کشمیر کی واحد نمائندہ جماعت مسلم کانفرنس نے 19جولائی 1947کو الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کر کے اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں دے دیا تھا۔ اگرچہ اس فیصلے کے ان کو سخت ترین نتائج بھگتنا پڑے، مگر وہ اپنے فیصلے پر نہ پچھتائے اور نہ پیچھے ہٹے۔
کانگریس نے اس تحریک پر شب خون مارنے اور خالصتاً اسلامی تحریک میں نیشنل ازم کی پیوند کاری کرنے کیلئے شیخ عبداللہ کو اپنے جال میں پھنسایا۔ کانگریس اور انگریز پاکستان کے قیام کے حق میں نہ تھے لیکن جب ان کے نہ چاہنے کے باوجود پاکستان کا قیام یقینی ہوگیا تو انہوں نے جموںکشمیر کو پاکستان سے کاٹ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کی تائید مائونٹ بیٹن اور گاندھی کے درمیان 2اپریل 1945ء کو ہونے والی ایک ملاقات سے ہوتی ہے جس کا ماحصل یہ تھاپاکستان کٹا پھٹا ہو اور کشمیر سمیت دیگر مسلم ریاستوں کے معاملات الگ تھلگ رکھے جائیں۔ خطے میں کشمیر کی جغرافیائی و دفاعی اہمیت۔ اس سلسلے میں برطانوی ہند کی افواج کا آخری سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل آکنلک جس نے ریاست پر بھارت کے قبضہ کیلئے بڑی تگ و دو کی تھی وہ اپنی سوانح عمر میں لکھتا ہے ’’کشمیر ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی ریاست تھی۔ اس کی سرحدیں تبت، چین اور سوویت یونین سے ملتی ہیں۔ اس لئے یہ ریاست عسکری نقطہ نظر سے کلیدی اہمیت کی حامل تھی۔ ‘‘ کشمیر پر قبضہ کرنے کی انتہا درجہ کی کوششوں کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ انگریز اور ہندو جانتے تھے کہ اگر جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو گیا تو پاکستان اپنی تشکیل میں مکمل اور دفاعی و زرعی اعتبار سے مضبوط و خود کفیل ملک بن جائے گا۔ کانگریس کو خود مختار کشمیر بھی منظور نہ تھا ۔
کشمیر پر بھارتی قبضہ کی راہ ہموار کرنے کیلئے جس طرح سچائی و صداقت کا جنازہ نکالا گیا۔ اس کی یقیناً تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 3جون 1947ء کو مائونٹ بیٹن پلان میں پنجاب اور بنگال کے اضلاع کی تقسیم کی بھی نشاندہی کی گئی تھی اور ضلع گورداسپور کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا تھا۔17اگست کوتحصیل شکر گڑھ پاکستان میں شامل کی گئی۔ دوسری طرف ریاست میں بھارتی فوج داخل کرنے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ مسلمانوں پر حملوں اور ان کے قتل عام کی ابتدا مہاراجہ ہری سنگھ جو اپنی فوج کا کمانڈر انچیف بھی تھا، نے خود اپنے ہاتھوں سے کی۔ تحصیل اکھنور میں اس نے خود گولی چلائی۔۔
کشمیری مسلمانوں کے قتل عام پر پاکستانی اور قبائلی عوام کا بے چین و مضطرب اور بے تاب و بے قرار ہونا فطری امر تھا، چنانچہ قبائلی عوام، مجاہدین اور وہ کشمیری مسلمان فوجی جو تقسیم سے قبل برطانوی فوج میں تھے از خود اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کیلئے نکل پڑے۔ ان کے پاس نہ تو باقاعدہ اسلحہ تھا اور نہ یہ منظم فوج کی طرح تھے۔ بس جذبہ ایمانی تھا جس کی بدولت بھارت کی ریگولر آرمی اور ان کی پشت پر جنگ کی کمان کرنے والے انگریز فوجی افسروں سے ٹکرا گئے۔ چند ہفتوں میں مجاہدین نے 4144 مربع میل علاقہ واگزار کروا لیا۔ مظفرآباد میں مہاراجہ کی فوج کی کمان کرنے والا کرنل نرائن سنگھ پہلے ہی حملے میں مارا گیا۔ مظفر آباد سمیت کئی علاقوں کو آزاد کروانے کے بعد مجاہدین کا اگلا پڑائو اڑی تھا۔ اڑی میں مجاہدین اور مہاراجہ کی فوج کے چیف آف اسٹاف بریگیڈیر راجندر سنگھ کا ٹکرائو ہوا اور راجندر سنگھ اس حملے میں اپنے ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ اب مجاہدین نے دوبارہ پیش قدمی شروع کردی یہاں تک کہ وہ مہوا کے بجلی گھر پر قابض ہوگئے۔ بجلی گھر پر قبضہ سے سری نگر تاریکی میں ڈوب گیا۔ مجاہدین کی پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے مہاراجہ ہری سنگھ جموں کی طرف بھاگ اٹھا۔ مہاراجہ کے پایہ تخت چھوڑ کر بھاگنے کے بعد کانگریس نے ایک طرف مہاراجہ کے نام سے الحاق کی جعلی دستاویز تیار کر کے ریاست میں فوجیں داخل کر دیں اور دوسری طرف نہرو نے اپنی پٹاری میں سے شیخ عبداللہ کو نکالا ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر اس وقت شیخ عبداللہ نہرو کے ہاتھوں کھلونا نہ بنتے تو آج پوری ریاست جموں کشمیر آزاد ہوتی۔ریاست جموں کشمیر کو ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کر انگریز اور بھارتی فوج کے افسروں نے مل کرحملے کا پروگرام بنایا اس سلسلے میں انگریز اور بھارتی فوج کا باہم اشتراک اس قدر تھا کہ ریاست پر حملے کیلئے بنایا گیا ہیڈ کوارٹر بھی انگریز اور ہندوستانی افسروں پر مشتمل تھا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ 27اکتوبر کی کالی رات میں بھارت نے اپنی فوج ریاست میں داخل کی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ اس سے پہلے ہی ریاست میں داخل کر چکا تھا۔ بھارت اور مہاراجہ کے فوجی سب مل کر بھی جب پانی کے بلبلے اور ناکارہ ثابت ہوئے تو پھر بھارت نے ٹینکوں اور توپوں کی مدد سے 27اکتوبر کی رات کو اعلانیہ حملہ کیا۔اس کے اور مجاہدین کے درمیان ایک معرکہ بارہ مولہ میں ہوا۔ اس معرکہ میں بھارتی فوج کی کمان کرنے والے کرنل رائے کو جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ مجاہدین کا مقابلہ کرنا اس کے بس میں نہیں۔ چنانچہ اس نے پٹن کی طرف پسپا ہونے کا فیصلہ کیا۔ کرنل رائے پسپا ہونے کے باوجود مجاہدین کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد بھارتی فوج کو اور بھی کئی محاذوں سے پسپا ہونا پڑا۔ پے درپے پسپائی اور کشمیر کو ہاتھوں سے نکلتا دیکھ کرجواہر لعل نہرو ہراساں و لرزاں ہو گئے۔ چنانچہ نہرو کی ایما پر فیلڈ مارشل آرکنلک جو برطانوی ہند افواج کے ہندوستان میں آخری سپریم کمانڈر تھے بذریعہ طیارہ لاہور پہنچے اور بانی پاکستان سے یوں گویا ہوئے اگر پاکستانی فوجیں کشمیر میں داخل ہوئیں جو اب قانونی طور پر ہندوستان کا حصہ ہے تو پاکستان آرمی میں کام کرنے والا ہر انگریز افسر فوری اور قطعی طور پر مستعفی ہو جائے گا۔ بانی پاکستان اس دھمکی کو بالکل خاطر میں نہ لائے اور انہوں نے جنرل گریسی کو کشمیر پر حملے کا حکم دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ گریسی نے حکم کی تعمیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ادھر مجاہدین کی پیش قدمی بدستور جاری تھی۔ تب نہرو بھاگم بھاگ سلامتی کونسل پہنچے اور جنگ بندی کی دہائی دی۔ پاکستانی حکمرانوں کی یہ فاش اور سنگین تر غلطی تھی کہ وہ سلامتی کونسل کے ذریعے نہرو کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گئے اور سیز فائر کو قبول کر لیا۔
مگر یہ جموں کشمیر کی آزادی کا بہترین موقع تھا جو ہمارے حکمرانوں نے ضائع کر دیا۔ اس وقت سے اب تک یہ مسئلہ لاینحل چلا آ رہا ہے۔ بھارت کا مفاد اسی میں ہے کہ مسئلہ کشمیر کبھی بھی حل نہ ہونے پائے، جبکہ مسئلہ کشمیر کے حل نہ ہونے کا نقصان صرف پاکستان کو ہے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اہل کشمیر کی پاکستان کے بارے میں جو امیدیں اور توقعات تھیں وہ مجروح ہو گئیں۔ مسئلہ کشمیرحل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کے مسائل و مصائب میں اضافہ ہوا اور بھارت کو افغانستان میں اڈے بنانے کا موقع ملا۔ اس وقت ملک میں جاری دہشت گردی، تخریب کاری، خودکش حملے، پانی کی قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی ہمارے حکمرانوں کی اسلام سے بے وفائی، مسئلہ کشمیر سے بے اعتنائی اور لاپروائی کا نتیجہ ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ بھارت کے ساتھ جنگ مول لی جائے لیکن ہم یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ خاموشی، کمزوری اور مداہنت ہمیثہ جارحیت کو دعوت دیتی ہے۔ یہ تسلیم کئے بغیر بھی چارہ نہیں کہ بھارت نے آج تک مسئلہ کشمیر سمیت کسی تنازع اور مسئلہ کو حل کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایک طرف وہ ہمارے ساتھ تجارت کیلئے بے تاب و بے قرار ہے دوسری طرف مسئلہ کشمیر، سرکریک، سیاچن اور پانی کے تنازعات پر بات کرنے کا روادار نہیں۔ وہ مختلف حیلے بہانوں اور جہتوں سے ہم پر مسلسل جارحیت کررہا ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں درجنوں ڈیموں کی تعمیر کے بعد اب وہ کو ہمالیہ کے دامن میں 292 ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ بنا رہا ہے ۔ ان ڈیموں کی تعمیر سے پاکستانی زمینوں کو سیراب کرنے والا سب سے بڑا دریائے سندھ سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔ ان حالات میں یہ کافی نہیں کہ ہم ایک دن اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کر لیں اور باقی سارا سال غفلت کا شکار رہیں۔ بھارتی فوج کے مظالم اہل کشمیر کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہیں کر سکے۔ ان کے حوصلے مائل بہ پرواز اور ولولے مصائب سے بے نیاز ہیں ۔ انہیں یقین ہے کہ ظلم کے سائے سمٹ کر ،آزادی کی صبح طلوع ہو کراور غلامی کی زنجیر کٹ کر رہے گی۔ لیکن اہل پاکستان خاص طور پر حکمران اپنے کردار کے بارے میں سوچیںکہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟