30 نومبر 1967ء وہ تاریخ ساز دن تھا، جب ’’اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سر چشمہ عوام ہیںکے بنیادی اصولوں، روٹی کپڑا اور مکان کے منشور کے ساتھ ‘‘قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔
یہ پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی سحر انگیز شخصیت کا کمال تھا جس نے سیاست کو محلات اور ڈرائنگ رومز سے نکال کر غریبوں کی جھونپڑیوں کے دروازوں پر لا کھڑا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی فلاسفی تھی کہ سیاسی جنت عوام کے قدموں میں ہے۔ اس فلاسفی کا کرشمہ یہ ہوا کہ عوام کو سوچنے کا شعور ملا اور وہ فخر سے سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ سیکھ گئے جو حقیقت میں تاریخی انقلاب تھا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ قائد اعظم کا پاکستان کیسے ٹوٹ گیا اس کی بھی ایک دردناک داستان ہے۔ بہرحال 20دسمبر 1971ء میں بھٹو شہید نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور تباہ حال و شکست خوردہ ملک کی دوبارہ تعمیر شروع کی۔ انہوں نے نہ صرف ہزاروں مربع میل زمین بھارت سے واگزار کرائی بلکہ 90 ہزار جنگی قیدیوں کو بھی باوقار انداز میں وطن واپس لائے۔ ملک کو پہلی بار آئین کا نور دیا، ملک کے کونے کونے میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعمیر کی، غریبوں کے بچوں کو اعلیٰ ملازمتیں دیں، اسٹیل ملز، پورٹ قاسم، کامرہ کمپلیکس، ہیوی مشینری فیکٹری جیسے ادارے قائم کئے۔ پاکستان کے ہر شہری کو پاسپورٹ بنوانے کا حق دیا۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ قائد عوام نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کرکے مسلمان ممالک کے درمیان دوستی کا ناطہ جوڑا۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کمزور طبقات کو طاقتور بنانا ان کا جرم بن گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کا عدالتی قتل کرنے کے بعد انکے دیئے ہوئے شعور کو کچلنے کیلئے خوف اور دہشت کا نظام نافذ کیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے جیالوں کو پھانسیاں دی گئیں 'کوڑے مارے گئے۔ عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے اقتدار پرست 'آئین شکن ٹولے کی مزاحمت کی اور قید خانوں کو اپنا گھر بنا لیا۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جس بہادری کیساتھ اقتدار پر قابض ٹولے کیخلاف جدوجہد کی دنیا کی سیاسی تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ 1988 میں عام انتخابات ہوئے ایک طرف جمہوریت کی علامت محترمہ بینظیر بھٹو شہید تھیں تو دوسری طرف ریاستی اداروں کے اشاروں پر چلنی والی سیاسی اور مذہبی جماعتیں مگر محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے بڑے بڑے بت زمین بوس کر دیئے۔ جمہوریت دشمن قوتوں نے 18ماہ کے اندر انکی جمہوری حکومت کو ختم کردیا مگر ان 18ماہ کے دوران بی بی شہیدنے ملک بھر کی جیلوں میں قید سیاسی قیدیوں کو رہا کیا۔ ضیا آمریت کے دوران ملازمتوں سے برطرف شدہ سرکاری ملازمین کو بحال کرنے کیساتھ ساتھ لاکھوں نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں فراہم کیں۔ بی بی شہید کا سب سے بڑاکارنامہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دوسرے پر ایٹمی حملہ نہ کرنے کا معاہدہ ہے ۔ 1996 ء سے لیکر 1999ء تک آمروں کی باقیات نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو سیاست سے بیدخل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی 1999ء میں پرویز مشرف نے آئین سے انحراف کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا، سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کی آئین شکنی کو جائز قرار دیا اور میاں نواز شریف اپنے خاندان و خادمین اور سرمایہ کےساتھ رضا کارانہ طور پر 10سال تک ملک واپس نہ آنے کا معاہدہ کرکے پاکستان چھوڑ گئے۔ 1999ء سے لیکر 2007ء تک محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد کی 'اکتوبر 2007 کو جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید اپنی جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس تشریف لائیں تو انکا سامنا نہ صرف ایک آمر سے تھا بلکہ وطن دشمن دہشت گردوں سے بھی تھا، جنہوں نے وزیرستان سے کراچی تک بارود کی آگ جلائی ہوئی تھی جسکی وجہ سے ملک کی سلامتی خطرے میں پڑچکی تھی ۔ وطن دشمن دہشت گردوں نے ان کے راستے میں قدم قدم پر بارودی سرنگیں بچھائیں مگر بی بی شہید انکی مزاحمت کرتی رہیں ' 27 دسمبر کی خونی شام کو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔ 2008 ءمیں عام انتخابات ہوئے اور صدر آصف علی زرداری کی زیر قیادت پاکستان پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی۔ صدر آصف علی زرداری کی زیر قیادت پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے وعدے پر عمل کرتے ہوئے سوات کو دہشت گردوں سے پاک کرکے وہاں قومی پرچم سر بلند کردیا ' ، صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ دیا گیا، 'فاٹا اور پاٹا کے عوام کو ٹیکس چھوٹ دی گئی، بلوچستان کے عوام سے ماضی میں کی گئی ناانصافیوں کا ازالہ کرتے ہوئے آغاز حقوق بلوچستان پروگرام شروع ہوا ' ،گوادر کو سنگاپور سے واپس لیکر چین کو دیا گیا جس کی وجہ سے قومی راہداری کی تعمیر ممکن ہوئی۔ سندھ میں وفاق کی مدد کے بغیر تھر کول منصوبے پر کام شروع کیا گیا ' سندھ میںچپہ چپہ پر دل کے امراض کے مفت علاج کیلئے این آئی سی وی ڈی جیسے ادارے بنائے گئے جہاں پورے ملک کے عوام کا مفت علاج ہوتا ہے۔ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں جگر اور گردوں کی مفت پیوند کاری اور علاج ہوتا ہے ' ۔ کراچی میں جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ٹراما سینٹر قائم کیا گیا جہاں کینسر کے مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں نے جہاں ملک میں آئین اور جمہوریت کی خاطر آگ اور خون کے دریا پار کئے ہیں وہاں عوام کی خدمت کرنے میں بھی سیاسی جماعتوں سے بہت ہی نہیں سب سے آگے ہیں۔