• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ ہائی کورٹ، فائل فوٹو
سندھ ہائی کورٹ، فائل فوٹو

سندھ ہائی کورٹ نے سندھ کے 140 سے زائد محکموں میں نئی بھرتیوں کے معاملے پر پابندی کا حکم برقرار رکھتے ہوئے سماعت 15 جنوری 2024ء تک ملتوی کر دی۔

عدالت میں صوبے کے 140 سے زائد محکموں میں نئی بھرتیوں کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

سرکاری وکلاء نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کیس کی سماعت میں تاخیر کے سبب کنٹریکٹ پر بھرتیوں میں مشکلات ہیں۔

یہ سن کر جسٹس ظفر راجپوت نے کہا کہ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ حکمِ امتناع کی وجہ سے مشکلات ہیں، خاص طور پر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی عدم دستیابی سے مریض مشکل میں ہیں۔

اُنہوں نے سرکاری محکموں میں نئی بھرتیوں پر اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کنٹریکٹ پر ملازمین ترقی یافتہ معاشروں میں رکھے جاتے ہیں، یہاں تو سفارشی کلچر کی بھرمار ہے، کارکردگی نہیں بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ بندہ کس کا ہے؟ 

جسٹس ظفر راجپوت نے کہا کہ سفارش اس وقت تک آتی رہے گی جب تک بااثر افراد کی نااہل اولادیں پیدا ہوتی رہیں گی، جب تک فرسودہ نظام تبدیل نہیں ہو گا، جب تک میرٹ پر غریب کو ملازمت نہیں مل جاتی۔

اُنہوں نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں میں نااہل اور سفارشی عملے کی وجہ سے بچے بھی مرتے ہیں، لوگوں کو میرٹ پر نوکریاں نہیں ملتیں، ہمیں پتہ ہے کہ بااثر لوگوں کے بچے کس طرح ایم بی بی ایس میں آتے ہیں۔

عدالت نے سندھ چائلڈ ہیلتھ کیئر سے ملازمتوں سے متعلق رولز طلب کر لیے۔

جسٹس ظفر راجپوت نے درخواست گزار کے وکیل فروغ نسیم کی عدم حاضری پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ حکمِ امتناع حاصل کرنے کے بعد پیش ہی نہ ہوں۔

جس پر جونیئر وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بیرسٹر فروغ نسیم آج سندھ ہائی کورٹ کے دوسرے بینچ میں ہیں۔

جس پر جسٹس ظفر راجپوت نے کہا کہ بیرسٹر فروغ نسیم جب مقدمے سے فارغ ہو جائیں تو انہیں یہاں پیش ہونے کا کہیں۔

جسٹس ظفر راجپوت نے سابقہ حکومت کے سندھ بھر میں گریڈ ون سے 15 تک سرکاری نوکریاں دینے کے طریقے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے جاتے جاتے ڈی سیز کو اوپن اور بلینک لیٹرز پر سرکاری نوکریاں دینے کا کہا، کئی ڈپٹی کمشنرز تو چھٹی پر چلے گئے، لوگوں کو کہا گیا کہ بلینک تقرر نامے ڈپٹی کمشنرز کےدفتر سے وصول کر لو۔

سرکاری وکیل نے عدالت کے ریمارکس پر تائید کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بھی یہی سنا ہے۔

جسٹس ظفر راجپوت نے کہا کہ ہم نے سرکاری نوکریوں پر میرٹ اور شفافیت کا خیال رکھنا ہے، پہلےٹرانسپورٹ کا ادارہ ایس آر ٹی سی ہوا کرتا تھا، ٹرانسپورٹ کے اس ادارے کو بھی تباہ و برباد کر دیا گیا، ادارے یہیں رہیں گے ہم نہیں رہیں گے، اداروں کو سسٹم کے تحت چلائیں گے تو سب کا فائدہ ہو گا لیکن  اداروں کو بغیر سسٹم چلائیں گے توصرف سرکاری نوکریاں کرنے والوں کو فائدہ ہو گا۔

عدالت نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کیئر اور داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی کو کنٹریکٹ ملازمتوں کے لیے دوبارہ اشتہارات دینے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے حکمِ امتناع کے باوجود سیسی میں سرکاری ملازمتیں جاری کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ جب حکمِ امتناع جاری ہو چکا تھا تو کیسے سرکاری نوکریاں اور تنخواہیں جاری کی جا رہی ہیں؟

جس پر ایم کیو ایم کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ محکمۂ ٹرانسپورٹ میں ایک ایس او نے 40 نوکریاں جاری کر دی ہیں۔

بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ چیف سیکریٹری اور دیگر کے خلاف کارروائی ہونی چاہئیں۔

عدالت نے سرکاری نوکریوں پر پابندی کا حکم برقرار رکھتے ہوئے سماعت 15 جنوری 2024ء تک ملتوی کر دی۔

قومی خبریں سے مزید