• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں کچھ روز قبل ہی اپنے دورہ مراکو سے وطن واپس لوٹا ہوں۔ یوں تو کام کے سلسلے میں میرا سال میں کئی بار مراکو آنا جانا رہتا ہے مگر حالیہ دورہ کچھ ماہ قبل مراکو میں آنے والے زلزلے جس میں 3 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے، کے بعد پہلا دورہ تھا، اس طرح زلزلہ سے متاثرہ شہر مراکش میں بھی کچھ روز گزارنے اور پرانے شہر مدینہ کو قریب سے دیکھنے کا مشاہدہ ہوا۔ گوکہ مراکو کو پاکستان میں مراکش کے نام سے جانا جاتا ہے مگر مراکش، مراکو کا ایک معروف شہر ہے جو سیاحت کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے جہاں دنیا بھر سے لاکھوں افراد سیاحت کی غرض سے آتے ہیں۔ حال ہی میں آنے والے زلزلے میں مراکش کے مضافاتی علاقے بری طرح متاثر ہوئے تھے جبکہ قدیم شہر مدینہ کی کئی عمارتوں اور فصیل کو بھی نقصان پہنچا تھا۔

میرا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ میں جب بھی مراکو جاتا ہوں تو مراکو کے اعزازی قونصل جنرل اور پاکستان مراکو بزنس فورم کے صدر کی حیثیت سے دارالحکومت رباط میں پاکستان کے سفیر سے ملاقات کرکے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کے فروغ کے سلسلے میںتبادلہ خیال کرتا ہوں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ میرے قریبی دوست محمد سمیع حال ہی میں مراکو میں پاکستان کے سفیر متعین ہوئے ہیں۔ محمد سمیع ایک کاروباری شخصیت ہیں جن کا کاروبار پاکستان اور سعودی عرب میں پھیلا ہوا ہے۔ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں عربی زبان پر بھی عبور حاصل ہے۔ رباط میں قائم پاکستانی سفارتخانے میں ملاقات پر میں نے سفیر پاکستان کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی اور بتایا کہ میں ہر سال پاکستان کے معروف بزنس مینوں کا وفد لے کر مراکو آتا ہوں اور گزشتہ کئی سال سے مراکو میں ’’بریانی فیسٹیول‘‘ کا بھی انعقاد کررہا ہوں تاکہ پاکستانی چاولوں کی مراکو ایکسپورٹ کو فروغ دیا جائے۔ دوران ملاقات یہ طے پایا کہ آئندہ سال رمضان المبارک سے قبل پاکستانی بزنس مینوں کا دورہ مراکو ترتیب دیا جائے اور ہر سال کی طرح اس سال بھی ’’بریانی فیسٹیول‘‘ کا انعقاد کیا جائے۔ سفیر پاکستان نے بتایا کہ اُن کی خواہش ہے کہ پاکستان اور مراکو کے درمیان باہمی تجارت کو فروغ دے کر اِسے ایک ارب تک لے جایا جائے۔ واضح رہے کہ پاکستان اور مراکو کے درمیان باہمی تجارت کا حجم 600 ملین ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اس موقع پر میں نے سفیر پاکستان کو اس سلسلے میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور انہیں یہ مشورہ دیا کہ آئندہ سال مراکو میں سنگل کنٹری نمائش کا انعقاد بھی کیا جائے تاکہ مراکو میں پاکستان کی مصنوعات کو فروغ دیا جاسکے۔ میں نے انہیں کراچی، کاسابلانکا کو ’’جڑواں شہر‘‘ قرار دینے کے حوالے سے ان سے تعاون کی درخواست کی جس پر انہوں نے میری تجاویز سے اتفاق کیا۔ مراکو میں قیام کے دوران سفیر پاکستان محمد سمیع نے میرے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ’’پاکستان ہائوس‘‘ میں عشائیے کا اہتمام کیا جس میں کچھ غیر ملکی سفارتکار بھی مدعو تھے۔

مراکو کے شہر مراکش کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں معروف صوفی بزرگ حضرت امام ابو عبداللہ محمد بن سلیمان بن ابوبکر الجزولیؒ کا مزار قدیم شہر مدینہ میں واقع ہے۔ حضرت سلیمان الجزولیؒ مشہور دعائیہ کتاب ’’دلائل الخیرات‘‘ کے مصنف ہیں جو نبی کریمﷺ کی خصوصی دعائوں اور درود و سلام پر مشتمل مجموعہ ہے جسے تحریر کرنے میں حضرت سلیمان الجزولیؒ کو کئی دہائیاں لگیں۔ کتاب کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ اِسے پڑھنے والے کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ کتاب کا ترجمہ اردو سمیت کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت سلیمان الجزولیؒ کے پیروکار پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کا عرس ہر سال 16 ربیع الاول کو پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے جس میں، میں بھی مراکش کے اعزازی قونصل جنرل کی حیثیت سے مدعو ہوتا ہوں۔ کچھ سال قبل عرس کے موقع پر حضرت سلیمان الجزولیؒ مزار کے سجادہ نشین الشیخ سید عبدالرحمن تلمودی الجزولی کو خصوصی طور پر کراچی مدعو کیا گیا تھا۔ پاکستان میں حضرت سلیمان الجزولیؒ کے پیروکاروں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں جب بھی مراکو جائوں تو اُن کا سلام حضرت سلیمان الجزولیؒ تک پہنچائوں۔ اس بار جب میں حضرت سلیمان الجزولیؒ کے مزار کے سجادہ نشین الشیخ سید عبدالرحمن تلمودی الجزولی کو اطلاع دیئے بغیر مزارپر پہنچا تو انہوں نے گلے لگاتے ہوئے کہا کہ ’’میں صبح سے ایسا محسوس کررہا تھا کہ کوئی خاص مہمان، حضرت سلیمان الجزولیؒ کے مزار پر آرہا ہے اور میرا یہ اندازہ صحیح ثابت ہوا۔‘‘ اس موقع پر انہوں نے مجھے حضرت سلیمان الجزولیؒ کی کتاب ’’دلائل الخیرات‘‘ پیش کرتے ہوئے میری اور پاکستان کی سلامتی کیلئے خصوصی دعا کی۔

سفارتخانہ کسی بھی ملک کیلئے اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب سفارتکاروں کا کام صرف عشائیوں میں شرکت کرنا ہوتا تھا لیکن موجودہ دور میں روایتی سفارتکاری معاشی سفارتکاری میں تبدیل ہوچکی ہے اور بیرون ملک متعین سفارت کاروں کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ وہ اپنے تعلقات بزنس کمیونٹی سے بھی استوار کریں اور فیڈریشن آف کامرس اور چیمبرز کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرکے سرمایہ کاروں کو اپنے ملک سرمایہ کاری کی دعوت دیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی یورپی یونین کے سفیر اور قونصل جنرل متعین ہوتے ہیں تو وہ پاکستان کے بزنس مینوں کی تقریبات میں خصوصی طور پر شرکت کرتے ہیں اور انہیں اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کے ملک میں کن کن شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع ہیں اور وہاں سے کیا اشیاء امپورٹ کی جاسکتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک کاروباری شخصیت ہونے کے ناطے سفیر پاکستان محمد سمیع کی ترجیح روایتی سفارتکاری کے بجائے معاشی سفارتکاری ہوگی اور وہ دونوں برادر اسلامی ممالک مراکو اور پاکستان کے درمیان معاشی، ثقافتی اور سفارتی تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین