جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے معاملے پر جسٹس اعجاز الاحسن کو جوڈیشل کونسل سے الگ کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی۔
میاں داؤد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی جس میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کی جگہ دوسرے سینئر جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ بنایا جائے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کو جسٹس مظاہر کے خلاف شکایت سننے والی کونسل سے الگ ہونا چاہیے۔
درخواست کے مطابق جسٹس مظاہر کے خلاف کرپشن اور مِس کنڈکٹ کا ریفرنس جوڈیشل کونسل میں زیرِ سماعت ہے، سائل کی شکایت پر جوڈیشل کونسل جسٹس مظاہر نقوی کو دوسرا شوکاز جاری کرچکا ہے جس میں 3 آڈیو لیکس کے بارے میں سوال کیا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ تینوں آڈیو لیکس مقدمات کی فکسنگ اور غلام محمود ڈوگر کیس سے متعلق ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن اُس بینچ کا حصہ تھے جس نے غلام محمود ڈوگر کیس سنا، قانونی اور اصولی طور پر غلام محمود ڈوگر کا مقدمہ سننے والا کوئی جج جوڈیشل کونسل کا ممبر نہیں رہ سکتا۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا سپریم جوڈیشل کونسل میں ممبر رہنا آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 9 کے خلاف ہے، جسٹس اعجاز الاحسن کا جوڈیشل کونسل کا حصہ رہنا مفادات کے ٹکراؤ اور شفافیت کے اصول کے خلاف ہے۔
درخواست کے مطابق شکایت کنندہ اور عوام کو یہ تاثر ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کونسل میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرسکیں گے، جسٹس اعجاز الاحسن کا جسٹس مظاہر کو شوکاز جاری کرنے سے دو بار اختلاف جانبداری کو مزید مضبوط کرتا ہے۔
اس حوالے سے دائر کی گئی درخواست میں وفاقی حکومت اور سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو فریق بنایا گیا ہے اور درخواست کے ساتھ سابق سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کے مقدمے کی آرڈر شیٹ بھی منسلک ہے۔