• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی کچھ ’’طاقتور قوتیں‘‘ایک بار پھرسرگرم ہوگئی ہیں کہ پاکستان کے آئین سے 18 ویں آئینی ترمیم کو مکمل طور پر خارج کردیا جائے۔کچھ عرصہ پہلے بھی یہ قوتیں اس سلسلے میں سرگرم ہوئی تھیں مگر اس وقت ان کی اس ’’سازش‘‘ نے اتنا زور نہیں پکڑا تھا مگر ایسے لگتا ہے کہ ان قوتوں نے کسی بھی صورت میں یہ منفی مقصد حاصل کرنا ہے‘ یہ قوتیںپہلی یا دوسری بار اس قسم کی سازش کررہی ہیں‘ اس سے پہلے ان قوتوں نے آپس میں مل کر نہ فقط اس وقت پاکستان کے مغربی حصے کے تین چھوٹے صوبوں کے خلاف سازش کی بلکہ پاکستان کے اس وقت کے بڑے صوبہ مشرقی پاکستان کو بھی ہٹ کیا‘ انہوں نے اس سازش کے تحت ایک تو اس وقت مغربی پاکستان میں سارے صوبوں کی صوبائی حیثیت ختم کرکے سارے مغربی پاکستان میں ون یونٹ قائم کرنے کے ساتھ ہیآمرانہ سازش کے تحت مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی آبادی مساوی کردی حالانکہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان کے سارے صوبوں کی آبادی سے زیادہ تھی‘ اس قسم کے آمرانہ اقدامات کے نتیجے میں ایک تو مغربی پاکستان کے تین چھوٹے صوبوں میں نفرت اتنی بڑھی کہ خاص طور پر سندھ میں ون یونٹ کے خلاف ایک زبردست تحریک شروع کی گئی‘ ساتھ ہی مشرقی پاکستان کی آبادی کم کرنے کے نتیجے میں وہاں کے عوام میں باقی پاکستان سے الگ ہونے کا جذبہ بڑھنے لگا‘ اسی صورتحال میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں عوامی لیگ عوام کی نمائندہ پارٹی بنی اور آخر کار مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی حیثیت میں ایک آزاد ملک بن گیا۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ تھی کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی بابائےقوم قائد اعظم محمد علی جناح جن کا تعلق ضلع ٹھٹھہ کے ایک گائوں سے تھا‘ شدید بیمار ہوئے اور اسی دوران انتقال کرگئے‘ قائد اعظم کے انتقال کے بعد پاکستان حقیقی معنیٰ میں یتیم ہوگیا۔ ایک لمبے عرصے تک پاکستان بیورو کریسی (جس کی بھی کم سے کم دو اقسام ہیں)‘ نوجوان‘ سرداروں اور ’’اونچی اڑان‘‘ کرنے والوں کے قبضے میں رہی۔ یہاں میں قرارداد پاکستان کا ذکر ضرور کروں گا‘ یہ قرارداد 1940 ء میں قائد اعظم کی صدارت میں لاہور میں پورے ہندوستان سے آئے ہوئے مسلم لیگی رہنمائوں اور کارکنوں کی کانفرنس میں منظور کی گئی۔ قرارداد پاکستان اس وقت بھی اور اب بھی پاکستان کی بنیاد تھی اور ہے مگر اس کے ساتھ سلوک یہ کیا گیا کہ اس پر عمل کرنے کی بجائے عملی طور پر اس وقت کے حکمرانوں نے یہ قرارداد کسی کھنڈر میں پھینک دی ۔ اس قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا کہ پاکستان میں شامل ہونے والی ریاستیں صوبے آٹونامس بھی ہوں گے تو خود مختار بھی۔

علاوہ ازیں اسی قرارداد میں یہ بھی واضح طور پر کہا گیا کہ پاکستان میں جو صوبے / ریاستیں شامل ہوں گی ان کے حقوق مساوی ہوں گے مگر جو قوتیں قائد اعظم کے انتقال کے بعد پاکستان پر قابض ہوئیں انہوں نے پورے پاکستان کو ایک ’’غلام‘‘ بنا دیا۔ اس مرحلے پر میں اس بات کا بھی ذکر کروں گا کہ ہندوستان اور پاکستان برطانوی حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے India and Pakistan Independence Act کے تحت آزاد ہوئے‘ اس ایکٹ کی ایک اہم شق یہ بھی تھی کہ آزاد ہوتے ہی ہندوستان اور پاکستان اپنے اپنے ملک میں فوری طور پر انتخابات کرائیں گے اور اس طرح منتخب ہونے والی پارلیمنٹ سب سے پہلے اپنے ملک کا آئین تیار کرے گی‘ آزاد ہوتے ہی ہندوستان نے ایسا کیا‘ پہلے انتخابات کرائے اور منتخب پارلیمنٹ نے ہندوستان کا آئین بنایا مگر پاکستان نے کیا کیا؟ پاکستان بنتے ہی قائد اعظم انتقال کرگئے‘ اس کے بعد نہ انتخابات کرائے گئے اور نہ پاکستان کو آئین دیا گیا‘ اس طرح ایک لمبے عرصے تک پاکستان ایک غیر جمہوری اور غیر آئینی ریاست کے طور پر چلایا جاتا رہا۔

یہ افسوسناک صورتحال 1973 ء تک رہی جب پہلی بار پاکستان کو منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے ایک آئین دیا گیا‘ یہ آئین جمہوری بھی تھا اور وفاقی بھی مگر وفاق کا جو نظام اس آئین کے تحت نافذ کیا گیا وہ 1940 ء کی پاکستان قرارداد کے حوالے سے ناکافی تھا کیونکہ اس آئین میں صوبوں کے مساوی حقوق کو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں آئین میں کوئی شق شامل کی گئی خاص طور پر چھوٹے صوبوں کا تقاضا تھا کہ پاکستان میں مساوی وفاقی نظام عائد کیا جائے جبکہ یہاں اکثر اختیارات یا ایک بڑا صوبہ وفاق کے نام پر استعمال کرتا رہا ہے یا افسر شاہی اور دیگر طاقتور حلقے استعمال کرتے رہے ہیں‘ چھوٹے صوبوں کے عوام کو اس وقت کسی حد تک تسکین محسوس ہوئی جب پاکستان کی پارلیمنٹ نے 18 ویں آئینی ترمیم منظور کی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس وقت سے لیکر آج تک حکمراں طبقوں نے یا تو 18 ویں آئینی ترمیم پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا یا اس دوران ایسے حکمران آتے رہے جو یہ اعلان کرتے تھے کہ یا تو 18 ویں آئینی ترمیم میں ان کی خواہش کے مطابق تبدیلی کی جائے گی یا 18 ویں آئینی ترمیم کو مکمل طور پر آئین سے خارج کیا جائے گا۔ ان اعلانات کے تحت سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ ہوتا تھا‘ کچھ قوتیں کہتی تھیں کہ ہم سندھ کو مزید حصوں میں تقسیم کریں گے تو کچھ قوتوں کا ٹارگٹ یہ رہا کہ کراچی کو سندھ سے الگ کرکے اسے ایک الگ صوبہ بنادیا جائے ۔ (جاری ہے)

تازہ ترین