پاکستان مسلم لیگ ( ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بالآخر وہی سیاسی بیانیہ اختیار کر لیا ہے ، جس پر ان کی پارٹی میں پہلے ہی اختلاف تھا۔ وہ دوبارہ عدلیہ اور فوج کے ان لوگوں کا احتساب کرنے کی بات کر رہے ہیں ، جنہوں نے بقول ان کے ماضی میں انہیںحکومتوں سے نکالا تھا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے تھے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات تک ان کی سیاسی جماعت کے مختلف قائدین اور اتحادی سیاسی جماعتیں ان کا کتنا ساتھ دیتی ہیں اور اس بیانیہ کے ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
وطن واپسی سے قبل جب میاں محمد نواز شریف نے کچھ ججوں اور جرنیلوں کا نام لے کر ان کا احتساب کرنے کی بات کی تھی تو اس سے یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ وہ ایک بار پھر ٹکرائو اور تصادم کی سیاست کرنا چاہتے ہیں ۔ جس دن میاں صاحب کا یہ بیان سامنے آیا تھا ، اسی دن ان کے بھائی اور سابق وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف لندن سے واپس آئے تھے اور واپسی والے دن ہی وہ دوبارہ واپس لندن چلے گئے ۔ نہ صرف میاں شہباز شریف بلکہ پارٹی کے دیگر قائدین نے بھی میاں نواز شریف کے بیان پر جو بیانات دیئے ، ان سے یہ واضح محسوس ہو رہا تھا کہ وہ میاں نواز شریف کے بیان سے پیدا ہونے والے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مطلب یہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے مذکورہ بالا قائدین میاں نواز شریف کے اس بیانیہ کی تائید نہیں کرتے یہ اور بات ہے کہ انہوں نے کھل کر مخالفت بھی نہیں کی ۔ اس کے بعد میاں نواز شریف کی وطن واپسی میں تاخیر ہو گئی ۔ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ مذکورہ بالا بیان کی وجہ سے کچھ مسائل پیدا ہو گئے ہیں ۔ تاخیر کے بعد جب میاں محمد نواز شریف وطن واپس آئے تو انہوں نے لاہور میں اپنے استقبالی جلسے سے خطاب میں یہ کہہ کر سب کو حیرت زدہ کر دیا تھاکہ وہ ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر کسی سے انتقام نہیں لیں گے اور سب کو معاف کر دیں گے ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ میرے دل میں انتقام کی بالکل تمنا نہیں۔ ریاست کے تمام ستونوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا ۔اس خطاب سے پھر یہ تاثر پیدا ہوا کہ میاں محمد نواز شریف نے لندن میں جو بیان دیا تھا ، اس پر انہوں نے کچھ مصلحت اختیار کر لی ہے۔
اگلے روز لاہور میں پارٹی کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے میاں محمد نواز شریف پھر اسی بیانیہ پر لوٹ آئے اور انہوں نے کہا کہ وہ صرف مرکزی اور صوبائی حکومتیں نہیں لیں گے بلکہ 2017کے جعلی مقدموں کا احتساب بھی چاہتے ہیں ۔ اس سے اگلے روز پھر لاہور میں ہی پارٹی کے ٹکٹ کے امیدواروں سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ کے قائد نے سوال کیا کہ ’’ ہمیں بتایا جائے 1993 اور 1999 ء میں ہمیں کیوں نکالا گیا ؟ کیا کارگل جنگ چھیڑنے کے سوال پر نکالا گیا ؟ ‘‘ پارٹی کے دونوں اجلاسوں سے خطاب کرتے ہوئے میاں نواز شریف نے جو کہا ، اس سے پھر یہ تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ وہ اسی بیانیہ پر واپس آ گئے ہیں ، جس پر بوجوہ انہوں نے کچھ عرصے کے لیے خاموشی اختیار کیے رکھی ۔ یعنی وہ ’’ ووٹ کو عزت دو ‘‘ کے بیانیہ کی بجائے ’’ مجھے کیوں نکالا ‘‘ کے بیانیہ پر لوٹ آئے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری میاں نواز شریف کے اس بیانیہ کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں ۔ تیمر گرہ میں پارٹی وررکز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک کے معاشی حالات ایسے نہیں ہیں کہ ہم انتقام کی سیاست کے متحمل ہو سکیں ۔ میاں صاحب چوتھی بار بھی ’’ سلیکٹ ‘‘ ہو کر آئے تو نہ عوام مانیںگے اور نہ میں مانوں گا ۔ بلاول بھٹو زرداری کھل کر میاں نواز شریف کے سیاسی بیانیہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر میاں نواز شریف یہ سیاسی بیانیہ اختیار کرنے پر کیوں مجبور ہیں جبکہ ان کی پارٹی کے سینئر قائدین اس بیانیہ کی کھل کر حمایت بھی نہیں کر سکتے ؟ بعض حلقوں کا خیال یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات قریب ہیں اور میاں محمد نواز شریف ابھی تک اپنے مقدمات سے نہیں نکل پائے اور ان کی نااہلی بھی ابھی تک ختم نہیں ہوئی ۔ اگر ان کی سیاسی جماعت انتخابی نتائج کے بعد اس پوزیشن میں آ جاتی ہے کہ وہ اکیلے یا اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجاتی ہے تو میاں نواز شریف کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کیلئے ضروری ہے کہ انتخابی شیڈول کے اعلان سے پہلے ان کی نااہلی ختم ہو جائے اور وہ الیکشن لڑ سکیں ۔ لیکن اب تک کے موجودہ حالات انکی توقعات کے مطابق نہیں ہیں ۔ اسی لیے ان حلقوں کا خیال ہے کہ نواز شریف دوبارہ اپنے بیانیہ کی طرف لوٹ آئے ہیں اور ان کے سیاسی بیانات میں تلخی نمایاں ہو رہی ہے ۔
اگر ایسا ہے تو میاں محمد نواز شریف کو پاکستان کی سیاسی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے ۔ جو کچھ مسلم لیگ (ن) یا پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے ساتھ ہوا ، اس سے کہیں زیادہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوا ۔ لیکن پیپلز پارٹی کی سیاسی قیادت نے ہمیشہ سیاسی تدبر اور فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی سیاسی جماعت ٹکراو یا تصادم کی پوزیشن میں نہیں ہے ، سیاسی قوتوں کو اگر پیش قدمی کرنی ہے تو ٹکراو اور تصادم کی سیاست سے گریز کرتے ہوئے سیاسی اور جمہوری عمل کو نہ صرف آگے بڑھانا چاہئے بلکہ اس عمل کو ’’ ڈی ٹریک ‘‘ ہونے سے بھی بچانا چاہئے ۔ تب ہی سیاسی قوتیں مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے پیش قدمی کر سکتی ہیں اور اس پیش قدمی میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ۔مفاہمت صرف ایک نقطے پر ہونی چاہئے کہ جمہوری عمل جاری رہے تاکہ سیاسی قوتوں کو پیش قدمی کا راستہ مل سکے ۔ آمرانہ حکومتوں کے بعد جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ساتھ 18 ویں آئینی ترمیم اور میثاق جمہوریت سیاسی قوتوں کی ایک بہت بڑی اور تاریخی پیش قدمی ہے ،اس وقت ملک میں سیاسی قوتیں انتہائی کمزور ہو چکی ہیں ۔ میاں نواز شریف اگر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اس بیانیہ سے سیاسی دباو ڈال کر چوتھی بار وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سیاسی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا ۔ اس کا نہ صرف ان کی اپنی سیاسی جماعت کو نقصان ہو گا بلکہ ان کے وہ سیاسی اتحادی بھی ان کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں ، جن کے ساتھ وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہے ہیں ۔ ان سیاسی اتحادیوں کے بارے میں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا سیاسی پس منظر کیا ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کے لیے خطرات بھی پیدا ہو سکتے ہیں ۔ بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات کی وجہ سے ان خطرات میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے ۔ اس وقت بہت زیادہ سیاسی تدبر اور حوصلے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)