• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ کمیٹیوں کے درمیان گزشتہ جمعرات کو خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے ، اس کے الفاظ تو بہت خوش کن ہیں لیکن اس کا گہرا تجزیہ کیا جائے تو بہت سی باتیں حقیقت میں پریشان کن ہیں ۔ طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے جو اعلامیہ پڑھ کر سنایا ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ دونوں کمیٹیوں کے ارکان نے اتفاق کیا ہے کہ امن وسلامتی کے مفاد میں دونوں فریق کسی مسلح کارروائی سے گریز کریں گے ۔ پرتشدد کارروائیاں بند کردی جائیں گی اور مذاکرات آئین کے دائرہ کار میں ہوں گے ۔ یہ دونوں باتیں بظاہر بہت اچھی ہیں لیکن عملاً صورت حال قطعی طور پر مختلف ہے ۔ ساری دنیا یہ بات جانتی ہے کہ مذاکراتی کمیٹیاں بننے کے بعد بھی دہشت گردی کی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں، جن سے تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی ) نے لا تعلقی کا اعلان کیا ۔ مگر پشاور میں امام بارگاہ کے نزدیک ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری اخباری رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی پشاور کے سربراہ نے قبول کی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان کی نامزد کمیٹی کی طرف سے پر تشدد کارروائیاں بند کرنے پر جو اتفاق کیا گیا ہے ، اس کے بارے میں یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا طالبان اپنے نامزد کردہ نمائندوں کی بات سے اتفاق کریں گے یا نہیں ؟ جہاں تک پاکستان کے آئین کے دائرے میں مذاکرات کرنے پر اتفاق کا معاملہ ہے ، اس پر بھی مشترکہ اعلامیہ میں ہی شکوک و شبہات پیدا کردیئے گئے ہیں ۔ مثلاً اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مذاکرات کا دائرہ پورے ملک پر نہیں بلکہ صرف شورش زدہ علاقوں اور وہاں کے متعلقہ افراد تک محدود ہو گا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شورش زدہ علاقے اور غیر شورش زدہ علاقے الگ الگ ہیں۔ حکومتی کمیٹی کے ارکان کو چاہئے تھا کہ وہ شورش زدہ علاقوں کی مخصوص اور الگ حیثیت کو تسلیم ہی نہ کرتے ۔ دہشت گردی کی کارروائیاں پورے ملک میں ہورہی ہیں۔ لہذا مذاکرات کا دائرہ صرف شورش زدہ علاقوں تک محدود نہیں ہو سکتا ۔ حکومت کی نامزد کردہ کمیٹی نے ایک سنگین فنی غلطی کا ارتکاب کرلیا ہے ، جس کا ازالہ بہت مشکل ہو گا ۔ انہوں نے بالواسطہ طور پر یہ تسلیم کرلیا ہے کہ شورش زدہ علاقوں پر طالبان کا کنٹرول ہے یا دوسرے لفظوں میں حکومت پاکستان کی عملداری نہیں ہے حالانکہ حکومت پاکستان اور پاکستان کی افواج نے پاکستان کے کسی بھی علاقے پر طالبان کی عملداری کو قبول نہیں کیا ہے ۔ شورش زدہ علاقوں کی الگ حیثیت کو تسلیم کرنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہاں آئین پاکستان کا اطلاق مذاکرات کا ایشو بن گیا ہے ۔ اس سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ حکومتی کمیٹی اس بات پر کسی حد تک تیار ہے کہ شورش زدہ علاقوں میں ممکنہ معاہدے کے تحت ایک الگ نظام کو قبول کیا جا سکتا ہے ، جو آئین پاکستان کے دیئے گئے نظام سے مختلف ہوگا ۔ جیسا کہ ماضی میں ہونے والے چند معاہدوں میں قبول کیا گیا تھا ۔ یعنی ان علاقوں میں طالبان کا شرعی نظام نافذ ہو گا ۔ ماضی میں اس طرح کے معاہدے کرکے ان علاقوں پر طالبان کے کنٹرول کو تسلیم کیا گیا تھا ۔ اگر حالیہ مذاکرات کے نتیجے میں بھی ایسا ہوا تو یہ طالبان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی کہ کچھ علاقوں میں ان کی عملداری کو تسلیم کرلیا گیا ہے اور یہ معاہدہ ماضی کے معاہدوں سے بھی مختلف ہوگا کیونکہ اس مرتبہ طالبان بڑی حکمت عملی کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کے ارکان کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان کی وزیر اعظم ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات کرائی جائے جبکہ حکومت کی طرف سے نامزد کردہ کمیٹی کے ارکان کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان کی طالبان رہنماؤں سے ملاقات کرائی جائے ۔ دونوں طرف سے یہ مطالبات سامنے آنے کے بعد دونوں کمیٹیوں نے اپنی اہمیت کے بارے میں سوالیہ نشان پیدا کردیا ہے اور بالواسطہ طور پر ایک دوسرے کے غیر مؤثر ہونے کا تاثر دیا ہے ۔ پہلی ہی ملاقات میں دونوں کمیٹیوں کو اس طرح کے مطالبات نہیں کرنے چاہئیں تھے ۔ تین چار ملاقاتوں کے بعد جب یہ کمیٹیاں کوئی ٹھوس تجاویز مرتب کر لیتیں تو پھر ان کے یہ مطالبات شکوک و شبہات پیدا نہ کرتے ۔ پہلی ہی ملاقات میں اس طرح کے مطالبات کرنے سے طالبان کی کمیٹی نے یہ تاثر دیا ہے کہ حکومتی کمیٹی کے ارکان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اصل معاملات وزیر اعظم ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ہاتھ میں ہیں جبکہ حکومت کی نامزد کردہ کمیٹی نے یہ تاثر دیا ہے کہ جب تک اصل طالبان رہنماؤں سے بات چیت نہیں ہو گی ، مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔ مذاکرات کے مشترکہ اعلامیہ اور فریقین کے مطالبات کا مذکورہ بالا تناظر میں جائزہ لینے کے بعد امید افزا صورت حال نظر نہیں آتی ہے ۔
ایک اور پہلو پر بھی ہم خوش فہم لوگوں کی نظر نہیں ہے ۔ وہ پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں طالبان کے بھی کئی گروہ ہیں اور ان میں مذاکرات کے معاملے پر اختلاف رائے بھی موجود ہے ۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ سارے گروہ طالبان شوریٰ کے مرکزی فیصلوں کے پابند ہوں ۔ طالبان گروہوں کے علاوہ پاکستان میں کئی دوسری کالعدم تنظیمیں اور انتہا پسند گروہ بھی موجود ہیں ، جو نہ تو طالبان کے نظم و ضبط میں ہیں اور نہ ہی وہ ان مذاکرات کو تسلیم کریں گے ۔ طالبان کے لیے انتہائی نرم گوشہ رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جب سے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ طالبان پاکستان کے آئین کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ صرف ڈرون حملوں کے خلاف مزاحمت کررہے تھے ، تب سے طالبان کے حامی اور ہمدرد حلقوں کی جانب سے طالبان پر دباؤ بڑھ گیا ہے اور وہ طالبان سے مطالبہ کررہے ہیں کہ عمران خان کی بات کی وضاحت کی جائے ۔ طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی کے رکن مولانا عبدالعزیز کی کمیٹی سے علیحدگی اس امر کا واضح ثبوت ہے ۔ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کا کہنا یہ ہے کہ مذاکرات آئین پاکستان کے دائرہ کار میں نہیں بلکہ قرآن وسنت کے مطابق ہوں گے ۔ یہ بات نہ صرف مشترکہ اعلامیہ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے بلکہ اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ طالبان کے حامی حلقے طالبان کی طرف سے آئین پاکستان کو ماننے کے معاملے پر اپنے تحفظات رکھتے ہیں ۔ لگتا ہے کہ آئین پاکستان کے دائرہ کار میں مذاکرات پر دونوں کمیٹیوں کے اتفاق رائے کا معاملہ کچھ دنوں میں دیگر حلقوں کی جانب سے بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ ان معروضی حقائق کے باوجود پوری پاکستانی قوم کی یہ خواہش ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوں لیکن اس کامیابی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹیں نظر آرہی ہیں ۔
تازہ ترین