• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سقوط ڈھاکہ …

جب پاکستان کے دو ٹکڑے کر دیئے گئے، غیروں کی ریشہ دوانیوں کا تو ذکرہی کیا، اپنوں کی بے بصیرتی اور نا انصافی بھی حدوں سے گزر گئی تھی۔ یہ وہ دن ہے جس کی یاد تازہ ہوتے ہی آج بھی محبِ وطن پاکستانیوں کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے۔1971 سے لے کر آج تک جب بھی سولہ دسمبر آتا ہے، اپنے ساتھ اُس دن کی تلخیاں اور اس کے بعد منظرِعام پر لائی جانے والی شرمناک سچائیوں اور جھوٹی کہانیوں کی چبھن بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔آج بھی بہت سارے سوال اپنے حقیقی جوابات کے متلاشی ہیں۔

پروفیسر سلیم منصور خالدنے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’سقوط مشرقی پاکستان کے المیے کے محرکات پر پاکستان میں ایک زمانے میں تو کچھ بات چیت اور کچھ تحقیق و تجزیے کا کام ہوا، لیکن پھر قومی سطح پر نادانی کا ثبوت ہوتے ہوئے اس باب کو ہی بند کر دیا گیا۔ احساس زیاں سے اس بے اعتنائی کے جرم میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگ شامل ہیں‘‘۔

میں انکشاف کیا ہے کہ اندرا گاندھی نے 1967ء میں آئی بی کے سینیئر افسر آر این کائو کے ساتھ مل کر ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا جس کا مقصد مشرقی پاکستان، بلوچستان اورصوبہ سرحد( اب خیبرپختونخوا) میں بغاوت کے جذبات کو تقویت دے کر ان کو علیحدہ ریاستوں میں تبدیل کرنا تھا۔ اس منصوبے کو ’’کائو پلان‘‘کا نام دیا گیا۔ باوثوق شہادتوں کے مطابق شیخ مجیب الرحمن بھارتی خفیہ ایجنسی سے 25ہزار روپے ماہانہ وصول کرتے تھے۔

حسینہ واجد نے مجیب کی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں تسلیم کیا ہے کہ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے ایک خفیہ تنظیم قائم کررکھی تھی۔ اگر تلہ سازش کیس بے بنیاد نہ تھا جو سیاسی مصلحتوں کی نذر ہوگیا۔ خفیہ ایجنسی را نے گہری سوچ بچار کے بعد چھ نکات تیار کئے جن کا بنیادی مقصد پاکستان کو پانچ ٹکڑوں میں تقسیم کرنا تھا۔ ادھر ہمارے ہاں مغربی پاکستان میں تخمینے لگانے والوں نے ہوش سے کام نہیں لیا۔ اندرا گاندھی نے امریکہ اورچین کو پاکستان کی مدد سے باز رکھنے کے لئے روس سے دفاعی معاہدہ کرلیا۔ را نے مکتی باہنی تیار کی تاکہ مشرقی پاکستان کے اندر فوج کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کیا جا سکے۔ یوں گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگادی۔

مگر بھارت اپنے اس مؤقف میں ناکام رہا کہ سقوط ڈھاکا ایک نظریے کی موت بنے۔ وہ نظریہ کہ جس نے برصغیر کے ہانپتے کانپتے ہجوم کو بطور قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لیا تھا۔ وہ نظریہ جس نے قدم قدم پر اغیار کی گندی سوچ کو شکست دی تھی۔جس نے1965کی جنگ میں ہندو کی ہر سازش کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا تھا۔ 

بھارت اپنے صرف ایک مقصد پاکستان کو دولخت کرنے میں ہی کامیابی حاصل کر سکا ،جس میں اسے بنگالی سیاست دانوں، فوجیوں ، بیورو کریسی اور علماء کی مکمل یاخاموش حمایت حاصل ہوئی۔ یعنی کامیابی صرف یہ ہوئی کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش تو بن گیا مگر بھارت میں ضم نہیں ہوا ، جس سے بھارتی سیاستدانوں کے سارے نظریے باطل ہوگئے اور دو قومی نظریہ اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود رہا اور تاحال ہے ۔

سانحہ ِ مشرقی پاکستان کے حوالے سے بھارت کاسازشی کردار،شیخ مجیب الرحمن کا منفی رویہ اور سوچ، بیوروکریسی کی پالیسیاں اور مغربی پاکستان کے اس وقت کے بعض سیاست دانوں کالالچ اور دوغلا پن، یہ سب نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اگر ہم اس سے بھی پہلے ماضی کاجائز ہ لینا شروع کریں اور حالات دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا بھاشانی پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے حق میں نہیں تھا ۔ لہٰذا پاکستان بنتے ہی اُس نے اِس حوالے سے سازشیں کرنا شروع کر دیں، شیخ مجیب الرحمن اُسی کا شاگرد تھا۔

قیام ِپاکستان کی جدوجہد کے دوران ایک بات دیکھنے میں آئی تھی کہ حقوق کی بابت کوئی بات نہیں کرتا تھا بس یہ مؤقف تھا کہ ایک ایسی ریاست جہاں اسلام اور شریعت محمدیؐ کے مطابق زندگی گزاری جائے۔ جیسا کہ 13جنوری 1948 کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کے دوران قائداعظم نے کہا تھا :

’’ ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان زبان اور رنگ و نسل کے فروغ کے لئے نہیں بنا تھا تاہم قائداعظم کے بعد پاک سر زمین سے سارے بنیادی اصول ختم ہو گئے۔ صرف علاقائیت،لسانیت اورفرقہ واریت باقی رہ گئی۔پاکستان بننے کے بعد مولانا بھاشانی نے بنگالی حقوق کاواویلا مچاتے ہوئے نظریہ پاکستان اور مذہب کو درمیان سے نکال کر صرف ا ور صرف صوبائیت اور زبان کو فروغ دینا شروع کر دیا۔

تاہم اس سے قبل قائداعظم کی حیات میں ہی سرکاری زبان کے مسئلے کو لے کر اس فسادی گروہ نے ایک منظم تحریک کا آغاز کر دیا تھا۔مشرقی پاکستان سے لسانی فسادات نے سر اُٹھایا توقائد اعظم محمد علی جناح نے بذات ِخود وہاں کا دورہ کیا اور مارچ1948 میں ڈھاکا میں خطاب کے دوران رنگ ونسل اور زبان کے امتیازات کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا:

’’میں چاہتا ہوں کہ آپ بنگالی،سندھی،بلوچی اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ کیا آپ وہ سبق بھول گئے ہیں جو تیرہ سوسال پہلے آپ کو سکھایا گیاتھا۔ یہ کہنے کا آخر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی ہیں، ہم سندھی ہیں، پٹھان ہیں: ہم تو بس مسلمان ہیں‘‘۔

تاہم آنے والے وقت نے سب سوچوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور عداوت کی ایسی اندھی ہوا چلی کہ اپنوں کی تمیز ختم ہو گئی۔1970/71کے انتخابات کے نتائج میں برتری کے باوجود جب بنگالیوں کو اقتدار نہیں ملا تو اُسی بنیاد پرعلیٰحدگی کی تحریک زور پکڑ گئی۔ بھارت نے اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور بنگالیوں کی امداد کے بہانے پاکستان پر جنگ مسلّط کر دی جس کا انجام سقوطِ ڈھاکا کے شرمناک المیے پر ہوا۔

جس کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان اور حال کے بنگلہ دیش میں پاکستان کے نام لیواؤں پر جو ظلم کیا گیا وہ خون اور آنسوؤں کی ایک ایسی تاریخ ہے جس کو بیان کرنے اور پڑھنے کے لئے ایک حوصلہ چاہئے۔ یہ ناقابلِ بیان سچائیاںہیں اور صد افسوس کہ یہ زیادتیاں آج تک جاری ہیں اور وہاں آج بھی پاکستان کا نام لینے والوں کو مو ت ہی دی جا رہی ہے۔

شیخ مجیب الرحمان جو اس سارے فتنے کی اہم ترین جڑ تھا، اقتدار ملتے ہی اپنی اوقات پر آ گیا ۔ صرف 3سال کے عرصے میں اتنی کرپشن کی کہ اُس کے اپنے ہی لوگوں نے اُس کو خاندان سمیت قتل کر دیا۔ اُس کی لاش بے گور وکفن پڑی رہی۔اُس کے حق میں بنگلہ دیش کے کسی کونے سے کوئی آواز بھی نہیں اُٹھائی گئی۔یہ تھا ایک مکار، سازشی کاانجام جو رہتی دنیا تک کے لئے عبرت کی ایک علامت ہے مگرصرف ان کے لئے جو سمجھنا چاہتے ہیں۔

اندرا گاندھی اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچی۔ دیکھ لیں جس جس نے محمد علی جناح کے پاکستان،اقبال کے خواب اورجدوجہد پاکستان کے بنیادی نظریے اور سوچ کو نقصان پہنچایا تاریخ نے اُن کی اور اُ ن کے خاندان کی دھجیاں اُڑتے دیکھیں۔ مجرموں کو سزا ویسے ہی ملی جیسے لکھی گئی تھی جو بھی پاکستان کے ساتھ برا کرے گا اُس کو اپنے انجام کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

بنگال اور بنگالی پاکستان کی جدوجہد کا روشن ترین باب ہیں۔ مسلم لیگ کی بنیادیں وہیں سے اٹھی تھیں تاہم اپنوں کی ہوس ِ اقتدار اور اغیار کی سازشوں نے پاکستان اور اسلام کی تاریخ کوناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ سقوط ِڈھاکا تاریخ کا ایک ایسا سبق ہے جس کے اسباب اور نتائج کو ہمارے پالیسی سازوں کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے ۔ اس امر سے بھی انکا ر نہیں کہ اُس سانحے سے وابستہ سچائیوں کو ہمیشہ توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور بہت سی حقیقتیں چھپا لی جاتی ہیں۔ یہ اپنوں کی غداری کا ایک ایسا سیاہ باب ہے جس کا فریب آج بھی قائم ہے اور لوگوں کی نظروں کو مسلسل دھوکا دئیے چلا جا رہا ہے۔

سقوط ڈھاکہ میں پاکستان کے دفاعی اداروں کو جس طرح بد نام کیا گیا، اورافواج پاکستان کومنفی انداز میں دنیا بھر میں پیش کیا گیا ، آنے والے وقت نے سارا سچ اگل دیا۔ وہ افسانوی باتیں تھیں جنہیں ہندو نواز لکھاریوں نے لکھا،نام نہاد دانشوروں نے پروان چڑھایا اور تحقیق سے عاری معاشرے نے اسے تسلیم کیا۔

سقوط ڈھاکہ نے تمام شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا ۔سیاست ، ادب اور سماج سارے ہی اس کے زیر اثر آ گئے۔ سماجی اثرات تخلیقی صورتوں میں سامنے آئے۔نثر، نظم اور غزل میں اس دردکو جس طرح سمیٹا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس تناظر میں فیض احمد فیض کی نیچے دی گئی مشہور ِزمانہ غزل سرفہرست ہے۔

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے

تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی

کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد

ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کئے

ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

سقوط ڈھاکہ کے باعث پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی نظام کے ساتھ ساتھ سماجی ڈھانچہ بھی ہل کررہ گیا تھا۔ رشتے کہیں دور رہ گئے اور خوف کے سائے طویل تر ہوتے چلے گئے۔ میرے والد ان دنوں ڈھاکہ کے ایک میڈیکل کالج میں پڑھاتے تھے۔ امی بتاتی ہیں کہ جیسے ہی حالات خراب ہونا شروع ہوئے وہ ابو کو واپسی پر زور دینے لگیں۔ ابو اپنے ایک بنگالی دوست کی مدد سے واپس آ گئے ، ایک مرتبہ میں نے ابو سے پوچھا تھا کہ نفرتوں کے سائے اتنے گہرے کیوں ہو گئے کہ ہمسائے کی مدد سے بات بٹوارے تک پہنچ گئی۔

انہوں نے بتایاکہ دونوں حصوں کے عوام کئی اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف تھے اور ان کے سماجی طرز عمل میں بھی واضح تفاوت موجود تھا۔ مغربی پاکستان کی سیاست پر زیادہ تر جاگیرداروں کا تسلط تھا اورمشرقی پاکستان کی سیاست میں وکلائ، اساتذہ اور ریٹائرڈ سرکاری افسر شامل تھے۔ یہ وہ طبقہ تھا جو ہندو نواز تھا اور ان کی جڑیں عوام میں تھیں، انہوں نے بھارتی منصوبے کو بھر پور طریقے سے پروان چڑھایا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جب جسم کا ایک حصہ کمزور پڑ جائے تو اس پر بیماریاں حملہ آور ہوجاتی ہیں ،دونوں خطوں کا کمزور پڑتا رشتہ بھارتیوں نے سمجھ لیاانہوںنے اپنا کھیل کھیلا اور خوب جم کر کھیلا کیونکہ ان کو کمک اندر سے مل رہی تھی۔ پاکستانی فوج کس کس کے ساتھ لڑتی، چالیس ہزار کے لگ بھگ فوج تھی اور مقابلے پر چھ سے سات لاکھ بھارتی فوج اور مکتی باہنی کے سول اور گوریلا غنڈے الگ۔

کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ بلاشبہ اغیار کی ایک کامیاب سازش تھی جس میں اپنوں کی ریاکاریوں کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اس میں پاکستانی سیاست کو سمجھنے کے لئے بہت کچھ تھا جسے تاحال نظر اندازکیا جا رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ان غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی سیاست کے معیار طے کریں اور اپنوں میں موجودایسے عناصر کو سختی سے دبائیں جو وطن پرستی کو ختم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔