کینیڈا کے سرکاری نشریاتی ادارے نے پچھلے دنوں ایک بڑی دلچسپ خبر چلائی۔ یہ خبر کینیڈا کے وزیراعظم ہائوس سے متعلق تھی۔ خبر یہ تھی کہ کینیڈین وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ‘ یعنی وزیراعظم ہائوس جو 24سسیکس ڈرائیو پر واقع ہے‘ کی حالت اتنی خراب ہو گئی ہے کہ اُس کے منتظمین کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا ہے کہ کسی دن یہ پوری عمارت یا اس کا کوئی حصہ منہدم ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ پلمبنگ‘ بجلی اور سکیورٹی کے بھی بے تحاشا مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس کی حالت اتنی نازک ہو چکی ہے کہ کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے اس عمارت میں رہنے کے بجائے دوسری رہائش گاہ میں رہنے کو ترجیح دی اور اب بھی وہیں مقیم ہیں۔
2021ء کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ عمارت اس قدر بوسیدہ ہو چکی ہے کہ اسے قابلِ استعمال بنانے کے لیے تین کروڑ 60لاکھ ڈالرز درکار ہیں۔ وہ کینیڈا‘ جس کے پاس تیل‘ معدنیات‘ بڑا صنعتی شعبہ اور دیگر بے پناہ وسائل ہیں‘ جو بڑی اور مستحکم عالمی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے اور جہاں ہر کوئی امیگریشن کے ذریعے جانا چاہتا ہے‘ کیلئے یہ رقم بہت معمولی ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ کئی برسوں سے اس کے وزرائے اعظم نے وزیراعظم کے لیے مختص سرکاری رہائش گاہ کی مرمت و تزئین و آرائش نہیں کروائی کہ اُس کے اس اقدام پر اُس کے مخالفین کیا کہیں گے‘ کینیڈا کے عوام میں اس اقدام سے کیا تاثر اُبھرے گا۔ دنیا کے اُن تمام جمہوری ممالک میں جہاں حکومتی عہدیدار اور افسر شاہی خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتی ہے ‘ وہیں اسی رویے کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
کینیڈا کے وزیراعظم کیلئے سرکاری طور پر مختص شدہ جہاز کی حالت بھی کافی عرصے سے بہت مخدوش ہے۔ اس کی نشستیں بھی پرانی ہیں اور اس کی دیکھ بھال بھی ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ یہ جہاز کینیڈین حکومت نے 1987ء میں ایک کینیڈین ائیرلائین سے خریدا تھا اور ابھی تک اسی سے کام چلایا جا رہا تھا لیکن رواں برس ستمبر میں جب کینیڈین وزیراعظم انڈیا میں جی 20کانفرنس میں شرکت کیلئے گئے اور سرکاری طیارے کی خرابی کی وجہ سے انہیں وہاں دو دن زائد قیام کرنا پڑا اس کے بعد کینیڈین حکومت نے کویت ایئر لائن سے وزیراعظم کیلئے آٹھ سال پرانا جہاز خریدا ہے۔ پرانا جہاز بھی نیا نہیں تھا بلکہ پہلے سے استعمال شدہ تھا۔
یہ کینیڈا کے سیاسی منظر نامے کی ایک بہت دلچسپ اور حیرت انگیز مثال ہے کہ جہاں حکومتی عہدیدار جائز اخراجات سے بھی عوام کے سامنے جوابدہی کی وجہ سے کتراتے ہیں۔ اگر اس صورتحال کا پاکستان کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو قومی آمدنی کے مقابلے میں اخراجات کی شرح عوام کے ہوش اُڑا دے گی۔ قواعد و ضوابط کی کھلم کھلا خلاف ورزی اس کے علاوہ ہے۔ حال ہی میں سیکرٹری ایوی ایشن نے سپریم کورٹ کی ہدایت پر ایئر پورٹ سکیورٹی فورس کو ایک حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر کے ہوائی اڈوں پر چیف جسٹس اور ان کی اہلیہ اور دیگر حاضر سروس ججوں اور ان کی بیگمات کی تلاشی نہیں لی جائے گی۔
ایئر پورٹ سکیورٹی ایک بڑا حساس مسئلہ ہے۔ اس کا تعلق صرف پاکستان کے اندر ملکی پروازوں سے نہیں بلکہ پاکستان سے دنیا بھر میں جانے والی پروازوں سے ہوتا ہے۔ اگر دیگر ممالک کسی بھی وجہ سے ہماری ایئر پورٹ سکیورٹی پر عدم اطمینان کا اظہار کر دیں تو پاکستان کو دنیا کے بڑے ممالک یا بڑے ایئر پورٹس پر جانےکیلئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آج ایک طبقہ ہے تو کل کو وزیر‘ اشرافیہ اور بیوروکریٹ بھی یہ استثنیٰ مانگیں گے۔ عالمی ایوی ایشن اتھارٹی جب پاکستانی ایئر پورٹس پر سکیورٹی آڈٹ کرے گی تو تب بھی اس ایک امر کی وجہ سے کئی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ پہلے ہی ہماری پروازیں کئی مغربی ممالک میں نہیں جا سکتیں۔ امریکہ میں پاکستان سے براہِ راست کوئی پرواز نہیں جاتی۔ اس وقت کینیڈا واحد مغری ملک ہے جہاں براہِ راست پاکستان ایئر لائنز کی پرواز جاتی ہے لیکن اگر اس اقدام کی وجہ سے کینیڈا نے بھی پاکستان سے براہِ راست پروازوں پر پابندی عائد کر دی تو اس سے پاکستانیوں اور قومی ائیرلائین کا بہت زیادہ نقصان ہو گا۔
پہلے تو اُس سوچ کو سلام جو پاکستان جیسے غریب ملک میں اس مسئلے کو اتنا اہم سمجھتی ہے۔ دوسری طرف یہاں جتنے بھی لوگ ایئر پورٹ پر وی آئی پی ٹریٹمنٹ چاہتے ہیں‘ پروٹوکول کے چکر میں رہتے ہیں‘ جب وہ دوسرے ممالک میں پہنچتے ہیں تو انہیں ضرور کسی نہ کسی قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے‘ ماسوائے اس کے کہ وہ کسی سرکاری دورے پر ہوں۔ بیشتر ممالک میں اُس صورت میں بھی کوئی استثنیٰ نہیں دیا جاتا۔ کینیڈا ایسا پروٹوکول صرف سربراہان مملکت، سربراہان حکومت اور ان کے قریبی خاندان کے اراکین کو دیتا ہے جب وہ سرکاری دورے پر ہوں۔ کوئی جج، وزیر یا کوئی اور شخص سیکیورٹی اسکریننگ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ شاہد خاقان عباسی صاحب جب وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر براجمان تھے‘ تب بھی انہیں امریکا میں سکیورٹی چیک کے عمل سے گزرنا پڑا تھا۔ سکیورٹی چیک اور دیگر قوانین کی پاسداری سے کوئی چھوٹا ہو جاتا ہے اور نہ کوئی بڑا ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عارف علوی کی یہ عادت لائقِ تحسین ہے کہ وہ زیادہ تر عام مسافر کی طرح ہی سفر کرتے نظر آئے۔ اس حوالے سے ان کی کئی تصاویر سامنے آ چکی ہیں لیکن اس بارے میں پورے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا وہ واقعی ایسے سفر کرتے ہیں یا ان کے عام سفر والی جو تصاویر آتی ہیں وہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کھنچوائی جاتی ہیں۔
ایوی ایشن کے ادارے اور اُس طبقے کو پھر سے اس حکم نامے پر غور کرنا چاہیے جس میں اُسے ایئر پورٹ پر سکیورٹی چیک سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس سے ملکی ایئر لائن اور ایئر پورٹس کیلئے سکیورٹی کے مسائل سر اٹھائیں گے جبکہ عام پاکستانیوں، بالخصوص نوجوانوں کو یہ منفی پیغام جائے گا کہ یہ ملک صرف طاقتوروں کا ہے‘ اس میں قوانین کا اطلاق برابری کی سطح پر نہیں بلکہ سماجی حیثیت کے مطابق ہوتا ہے‘ یہاں جو جتنا کمزور ہے اُسے اتنے ہی زیادہ قوانین کا سامنا ہے۔ وہ خود کو پاکستان میں برابر کا شہری تصور نہیں کریں گے۔ کینیڈا جیسے ممالک یونہی ترقی کی منازل طے نہیں کر رہے جہاں وزیراعظم ہائوس کی مرمت اور وزیراعظم کے جہاز کی تبدیلی سے پہلے ہزار دفعہ سوچا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاںعوام کا صرف تب سوچا جاتا ہے، جب پروٹوکول کے نام پر انہیں اپنے سامنے سے ہٹانا ہوتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)