• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

آج کل کافی حلقے حیران ہیں کہ ملک کی کچھ قوتوں کو تاریخی 18ویں آئینی ترمیم سے اتنی مخاصمت کیوں ہے کہ اب ان کا پہلا ٹارگٹ 18ویں آئینی ترمیم ہے جبکہ یہ آئینی ترمیم پاکستان کی ایک تاریخی دستاویز ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مثبت ڈاکیومنٹ 73ء کا آئین ہے کیونکہ اسکے نتیجے میں پاکستان ایک آئینی ملک بنا‘ زیادہ خوش نصیبی یہ تھی کہ یہ آئین وفاقی تھا حالانکہ ابھی اس کو مزید وفاق کی شکل دینے کی ضرورت تھی‘ یہ ضرورت خوش قسمتی سے 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پوری ہوگئی مگر پاکستان کی ’’آمرانہ‘‘ قوتوں کو یہ آئینی ترمیم قبول نہیں ‘ وہ پہلے بھی اس آئینی ترمیم کو ختم کرنیکی کوشش کر چکی ہیں ‘ انہیں اعتراض یہ ہے کہ اس ترمیم کے ذریعے صوبوں کے حقوق کافی حد تک بڑھا کر مساوی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مرحلے پر ان قوتوں کا جواب اس کالم میں 18 ویں ترمیم کی چند انتہائی اہم قابل تعریف شقوں کا ذکر کررہا ہوں‘ سب سے پہلے میں 18 ویں ترمیم کی شق کو اصل شکل میں پیش کرتا ہوں جو یہ ہے :

Article 2: Repeal, etc:

Subject to Article 264 and the provisions of the Constitution (Eighteenth Amendment) Act, 2010, -

(a) the Legal Framework Order, 2002 (Chief Executive's Order No. 24 of 2002), the Legal Framework (Amendment) Order, 2002 (Chief Executive's Order No. 29 of 2002) and the Legal Framework (Second Amendment) Order, 2002 (Chief Executive's Order No. 32 of 2002), are hereby declared to have been made without lawful authority and of no legal effect and, therefore shall stand repealed; and

(b) the Constitution (Seventeenth Amendment) Act, 2003 (Act No. III of 2003), is hereby repealed.

یہ تو پاکستان کی آئینی تاریخ کی سب سے زیادہ قابل تعریف شق ہے‘ اس شق کے تحت آمروں نے آمرانہ طور پر 73 ء کے آئین میں جو شقیں شامل کیں، ان سب کو 18 ویں ترمیم کے ذریعے اس کی شق 2 کے تحت خارج کردیا گیا‘ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ جو قوتیں 18ویں آئینی ترمیم کو آئین سے خارج کرنا چاہتی ہیں‘ کیا وہ سب کی سب آمرانہ سسٹم کا حصہ ہیں؟ اب میں 18ویں آئینی ترمیم کی ایک اور اہم شق کا ذکر کرنا چاہوں گا‘ یہ شق 18 ویں ترمیم کی شق 3 ہے اگر اس شق کو آئین سے خارج کیا جائے گا تو اس کا سب سے زیادہ ردعمل کے پی کے صوبہ پر ہوگا‘ یہ ردعمل اتنا شدید ہوگا کہ ملک کی ساری آمرانہ قوتیں اس ردعمل کا مقابلہ نہیں کرسکیں گی‘ اب میں شق 3 اصل شکل میں پیش کررہا ہوں۔

Article 3:Amendment of Article 1 of the Constitution:

In the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan, hereinafter referred to as the Constitution, in Article 1, in clause (2), in paragraph (a), for the word "Baluchistan" the word "Balochistan", for the words "North West Frontier" the words "Khyber Pakhtunkhwa", and for the word "Sind" the word "Sindh", shall be substituted.

پختون بھائیوں کے ساتھ کتنی زیادتی تھی کہ انکے تاریخی صوبے کو ایک طویل عرصہ ’’شمال مغربی سرحد‘‘ کہا جاتا رہا مگر یہ صوبہ زیادہ تر ’’صوبہ سرحد‘‘ کے طور پر پہچانا جاتا تھا‘ کیا پاکستان میں سرحدی صوبہ فقط کے پی کے ہے؟ سندھ‘ بلوچستان اور پنجاب کی سرحدیں بھی دوسرے ملکوں کی سرحدوں سے ملتی ہیں تو کیا ان کو بھی سرحدی صوبے کہا جانا چاہئے تھا؟ مگر پختون بھائیوں کے ساتھ یہ انصاف 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے کیا گیا کہ اسےاپنا اصل نام ’’خیبر پختونخوا‘‘ (کے پی ) کا نام دیا گیا‘ اس کے علاوہ اس ترمیم کے ذریعے آئین میں لکھے گئے سندھ اور بلوچستان کے ناموں کو بھی درست کیا گیا‘ آئین میں بلوچستان کو Baluchistan کرکے لکھا جاتا تھا جسے درست کرکے 18ویں ترمیم میں ان کے نام کی اصل اسپیلنگ یعنی Balochistan کی گئی۔اسی طرح آئین میں سندھ کو Sind (سند) کرکے لکھا گیا تھا مگر اسے بھی 18ویں ترمیم میں اس کا اصل نام Sindh استعمال ہونے لگا ہے‘ کیا اس ترمیم پر بھی کسی کو اعتراض ہے؟ (جاری ہے)

تازہ ترین