وکلا کی تنظیمیں ملک میں حلقہ بندیوں، انتخابی طریق کار اور نشستوں کی تقسیم کو غیرمنصفانہ قرار دیتے ہوئے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔ لوگ حلقہ بندیوں پر اعتراضات لیکر عدالتوں کا رخ کر رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں لیول پلیئنگ فیلڈ دینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ یہ سب ملک میں آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے متمنی ہیں مگر عام انتخابات کا انعقاد اتنی بڑی اور ہمہ گیر سرگرمی ہے جس میں حکومت، انتظامی افسران، سیکورٹی کا عملہ سب مصروف ہوتے ہیں۔ عوامی سطح پر جلسوں، جلوسوں، کنویسنگ، رابطوں کی سرگرمیاں نظر آتی ہیں۔ پورا ملک ہل کر رہ جاتا ہے۔ اتنا بڑا کام افراتفری میں بہر طور نہیں ہوسکتا۔ اسی باعث انتخابی قوانین، ضابطے، طریق کار، شیڈول بنائے جاتے ہیں۔ تمام کام ایک نظم کے مطابق بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بلوچستان میں حلقہ بندیوں پر اعتراضات سے متعلق درخواستیں مسترد کی ہیں اور ہائی کورٹس کی طرف سے حلقہ بندیوں کے حوالے سے دیئے گئے احکامات معطل کئے ہیں تو یہ واضح بھی کیا ہے کہ الیکشن شیڈول آنے کے بعد اس نوع کی درخواستوں کی پذیرائی سے عام انتخابات کا پروگرام متاثر ہوتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ان اعتراضات کو انتخابات کے بعد سنا جائے گا۔ انتخابات کو ڈی ریل نہیں کرنے دیا جائیگا، الیکشن کے انعقاد میں کسی صورت تاخیر قبول نہیں کی جائے گی۔ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے نظرثانی کی ایک درخواست کی سماعت کے دوران واضح کیا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد اگر عدالت انفرادی درخواستوں پر فیصلے دینے میں مصروف ہو جائے تو انتخابی عمل متاثر ہوگا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کی تاریخ آنا معمولی بات نہیں، اس تاریخ کے اعلان ہی سے ملک میں تھوڑا استحکام آیا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 8فروری 2024ء کی تاریخ کوانتخابات کے انعقاد کے لئے پتھر کی لکیر قرار دیا، اسی روز سے ملک میں کئی حوالوں سے استحکام کی صورت نمایاں ہوئی۔ اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی بہتر ہوئی۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی پرواز برعکس ہوگئی، معاشی و کاروباری سرگرمیوں میں بہتری نظر آئی اور مستقبل پر عام آدمی کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ حلقہ بندیوں پر اعتراضات الیکشن کے بعد سننے کے فیصلے سے 8فروری کو الیکشن میں رکاوٹ سامنے آنے کا خدشہ ختم کر دیا گیا ہے۔ وکلاء، جو قوم کا بیدار طبقہ ہیں، یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ انتخابات ایسے التوا کا شکار ہو جائیں جس کی حد کا پتہ نہ ہو۔ انکے مطالبات کا حقیقی مقصد معاملات کو درستی کی طرف لانا محسوس ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، سندھ بار ایسوسی ایشن اور پنجاب بار کونسل کی طرف سے جاری کردہ اعلانات میں تحفظات کے اظہار کیساتھ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ انتخابات 8فروری ہی کو ہونے چاہئیں۔ اس سے یہ تاثر نمایاں ہے کہ انکے پیش نظر ایسا راستہ موجود ہے جس سے تحفظات دور اور الیکشن بروقت منعقد ہوسکیں۔ پی ٹی آئی، ن لیگ اور پی پی پی کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کم از کم اس مرحلے پر وکلا تنظیموں کے مذکورہ مطالبے کی حمایت نہیں کرتے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے تو یہاں تک کہا کہ وکلا کا مطالبہ جائز مگر ٹائمنگ غلط ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہم انتخابات کے موقع پر کوئی بحران پیدا کرنا نہیں چاہتے۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کسی کے دبائو یا بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔ ایسے وقت، کہ کاغذات نامزدگی کے اجرا سے انتخابی عمل شروع ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیان بازی میں الجھنے کی بجائے سب کی شکایات سنے اور خدشات دور کرے۔