پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں تاریخی بلندی سےشدید مندی کے باعث اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ جب مارکیٹ انتہائی بلندی پر پہنچ جاتی ہے تو بڑے سرمایہ دار اچانک سرمایہ نکال لیتے ہیں جس سے وہ کریش ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ لمبے عرصے سے جاری ہے۔ اس صورت حال سے یہ تاثر بھی پیدا ہونے لگا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں ہونے والا یہ سارا کاروبار مصنوعی بنیادوں پر چل رہا ہے اور اس کا ملک کی مجموعی معاشی صورت حال سے کوئی تعلق نہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سےاسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ تیزی کا سلسلہ جاری تھا۔ 67ہزار پوائنٹس کی بلند سطح کو چھونے کے بعد پیر اور منگل کو سرمایہ کاروں نے فروخت کو ترجیح دی اور سرمایہ کے انخلا نے مارکیٹ کو شدید مندی کی لپیٹ میں لے لیا۔ مارکیٹ کریش ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاروں کو 3 کھرب 62ارب روپے کا نقصان ہوا جس سے مارکیٹ کا کل سرمایہ 94کھرب روپے سے کم ہو 90کھرب روپے ہوگیا۔ ایس ای 100 انڈیکس میں 2372پوائنٹس کی کمی ہوئی اور مارکیٹ 63ہزار پوائنٹس کی حد بھی برقرار نہ رکھ سکی۔ معاشی ماہرین کے مطابق سرمایہ کاروں کو انتخابات کے بعد کمزور حکومت بننے کے خدشات نے بھی متاثر کیا۔ سیاسی جماعتوں میں بڑھتا ہوا تنائو، کرنٹ اکائونٹس خسارہ اور پاکستان اسٹیل مل کا نجکاری کی فہرست سے خارج ہونا بھی تنزلی کی وجہ ہے۔ تجزیہ کاروں نے بھی پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں حصص کی قیمتوں پر منفی اثرات مرتب ہونے کی پیشگوئی کی تھی۔ کاروبار کے دوران انڈیکس ہیوی سیکٹرز بشمول آٹو موبائل اسمبلرز، سیمنٹ، کیمیکل، کمرشل بینک، آئل اینڈ گیس ایکسپلوریشن کمپنیز، او ایم سی فارما سوٹیکل اور ریفائنری میں فروخت دیکھنے میں آئی۔ 100 انڈیکس میں 900پوائنٹس سے زائد کمی کے بعد سرمایہ کاروں کو پرافٹ ٹیکنگ کا سہارا بھی لینا پڑا۔ اسٹاک مارکیٹ کے اتار چڑھائو تو لگا رہتا ہے بعض ماہرین کے مطابق آنے والے دنوں میں مارکیٹ میں بہتری نظر آنے کی امکانات ہیں۔