• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کمزور کو آنکھیں دکھانا اور طاقتور کے آگے بچھ بچھ جانا ہماری قومی نفسیات کا حصّہ ہے۔ شاہ پرستی ہماری گھٹی میں ہے کیونکہ ہماری تاریخ بادشاہوں کی جھوٹی سچّی کہانیوں کا مجموعہ ہے جو درباری وقائع نویسوں سے انہوں نے اپنی نگرانی میں لکھوائیں اور جنہیں ہم آج تک آنکھیں بند کرکے پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ انگریز نے بھی بادشاہی کا یہ نظام جاری رکھا۔ ظل الٰہی کی جگہ وائسرائے اور تاج برطانیہ نے لے لی۔ دو ہزاری، سہ ہزاری، پنج ہزاری منصب دار میجر، کرنل، جنرل کہلائے اور عمّال سلطنت کا خلا بیوروکریسی نے پر کر دیا۔ یوں عہدوں کے نام ضرور بدل گئے مگر بادشاہی کا تسلسل برقرار رہا اور پھر 1947ء میں آزادی تو مل گئی مگر اس کے لئے تیاری نہ ہونے کے برابر تھی۔ مملکت خداداد نے کس نظام کے تحت چلنا ہے، واضح نہ ہو پایا۔ سو حکومت بادشاہت کے انداز میں چلتی رہی اور یہ بادشاہت آج تک قائم و دائم ہے۔ گو اپنے آپ کو دھوکا دینے کے لئے نام جمہوریت رکھ چھوڑا ہے مگر یہ نام کی جمہوریت بھی بعض لوگوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اور وہ کسی نہ کسی بہانے اس کی صف لپیٹنے کے درپے رہتے ہیں۔ بالعموم یہ مہم جو سیاسی نظام کا حصّہ بھی نہیں ہوتی اور ان کی کل اوقات ایک آدھ اخباری بیان یا کسی گمنام چینل پر رونمائی ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ تو دور کی بات کونسلر کی نشست جیتنے کی سکت بھی نہیں رکھتے اور فوج کو پکارنا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ طریقۂ واردات یہ ہے کہ راولپنڈی کے مخصوص علاقے میں چپکانے کے لئے سو، پچاس جہازی سائز کے پوسٹر چھپواتے ہیں جس پر بالعموم آرمی چیف کی تصویر کے نیچے رزمیہ قسم کا یہ شعر موٹا موٹا لکھواتے ہیں:
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
ایوب خان کا تو راقم کو یاد نہیں البتہ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے مارشل لائوں میں یہ نسخۂ خاص کارگر رہا۔ وہ اپنے آپ کو سچ مچ کا منصف اور نجات دہندہ سمجھ بیٹھے اور ان کا اٹھایا ہوا حشر قوم بیس برس تک بھگتتی رہی۔ اس قبیل کے ایک فنکار نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بھی دعوت دی ہے کہ قوم کا مستقبل خلافت میں ہے۔ قوم کی نگاہیں آپ پر لگی ہیں، آگے بڑھیں وطن عزیز میں خلافت نافذ کر کے خلیفہ کا منصب سنبھال لیں۔ انّاللہ وانّا الیہ راجعونO یہ قصّہ راقم کو 34 برس پیچھے لے گیا۔
1980ء میں اپنی کتاب ’’المیّہ افغانستان‘‘ کے لئے مواد جمع کر رہا تھا تو ایک دن فارن آفس کے سیلن زدہ اور گل گھوٹو قسم کے آرکائیوز میں ایک فائل ایسے ہی ہاتھ میں آ گئی۔ کھولا تو ایک بے حد دلچسپ سرکاری خط سامنے تھا جو 14؍جون 1961ء کو منیلا (فلپائن) میں مقیم ہمارے سفیر نے وزیر خارجہ منظور قادر کے نام لکھا تھا۔ موضوع تھا ’’پاکستان کا مستقبل کا آئین۔‘‘ دراصل قوم کو 1962ء کا آئین دینے سے قبل ایوب خان نے صاحب دانش و فکر طبقات سے تجاویز طلب کی تھیں کہ مجوزہ آئین کس طرح کا ہو، اس کے خدوخال کیا ہوں؟ اس ضمن میں بیرون ملک خدمات انجام دینے والے پاکستانی سفرا سے بھی سفارشات طلب کی گئی تھیں۔ منیلا میں متعین سفیر کے خط کے مندرجات سے پتہ چلا کہ موصوف پہلے ہی اس موضوع پر ایوب خان سے براہ راست خط و کتابت کر رہے تھے۔ وزیر خارجہ منظور قادر کو خط بھجوانے کی وجہ یہ تھی کہ ان ہی دنوں موصوف آئین سازی سے متعلق کیبنٹ کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔ اس طویل خط میں سفیر محترم نے جمہوریت پر خط تنسیخ پھیرتے ہوئے ملک میں آئینی بادشاہت کا مکمل فارمولا پیش کیا تھا۔ اس خاندانی بادشاہت میں پہلی تاج پوشی ایوب خان کی ہونی تھی اور پھر سلسلہ ان کی نسل میں چل سو چل۔ خط کے مندرجات راقم کے لئے حیران کن تھے جس کی نقل تو حاصل کر لی مگر مدتوں حوالہ دیتے ہوئے جھجھک سی محسوس ہوتی رہی کیونکہ یقین نہیں آتا تھا کہ ایک دانشور قسم کے سفیر محترم جو مرکزی وزیر کے منصب پر فائز بھی رہ چکے تھے، اس قسم کی تجویز دے سکتے ہیں۔
راقم یہ سب بھول بھلا چکا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے ’’دی الطاف گوہر پیپرز ‘‘ نامی کتاب نظر سے گزری جس میں سفیر محترم کا یہی نہیں بلکہ اس موضوع پر ایوب خان کے نام لکھے گئے تین عدد خطوط بھی شامل ہیں۔ ایوب خان کے نام 27؍جولائی 1961ء کو منیلا سے بھیجے گئے ٹاپ سیکرٹ اور پرائیویٹ خط میں موصوف نے لکھا، جناب والا! میں بصد احترام یہ عرض کروں گا کہ جب تک بادشاہت رائج کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ ملک اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو پائے گا۔اگر بادشاہت سے کم درجہ کے کسی نظام کو رائج کرنے کی کوشش کی گئی تو مجھے خوف ہے کہ یہ چل نہ پائے گا کیونکہ یہ غیر فطری ہو گا اور غیر یقینی صورتحال بدستور جاری رہے گی۔ یوں قوم صحتیابی کا وہ موقع بھی کھو دے گی جو آپ نے فراہم کیا ہے اور یہ ہماری بڑی بدقسمتی ہو گی۔ اگر ہمیں ماضی قریب کی ناگواریوں سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرنا ہے، بے یقینی،تضادات و تنازعات کو ختم کرنا ہے، پاکستان کا استحکام اور اتحاد برقرار رکھنا ہے تو ہمیں ایک متحد قوم کی علامت کے طور پر ایک ایسی پرشکوہ شخصیت کو سامنے لانا ہو گا جو مرکزی مینار کی مانند ہو، مستقل ہو،مضبوط ہو، مقناطیسی کشش کی حامل ہو اور عمومی تضادات و تنازعات سے بالاتر ہو اور یہ صرف اور صرف شہنشاہیت کے قیام سے ہی ممکن ہے۔ مجھے آپ کی دشواریوں کا علم ہے۔ اگر آپ نے میری یہ تجویز مان لی تو بے شک یہ آپ کی طرف سے ایک بڑی قربانی ہو گی۔ یہ کانٹوں کا تاج پہننے کے مترادف ہو گا۔ اس سے شاید آپ کا ذہنی سکون بھی متاثر ہو اور آپ کو اپنے خاندان کی آزادی کی قربانی بھی دینا پڑے۔ آپ پر تنقید بھی ہو گی اور آپ کے بارے میں بے شمار غلط فہمیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک لحاظ سے اندھیرے میں چھلانگ ہے اور خدشات و خطرات سے خالی نہیں۔ یہ سب اپنی جگہ مگر یہ کوئی ایسی صورتحال نہیں ہو گی جس سے نمٹا نہ جا سکے اور مجھے آپ جیسے محب وطن سپاہی سے ہرگز توقع نہیں کہ وہ ان مشکلات سے خوفزدہ ہو کر ملک کو پھر سے بے یقینی کی بھٹّی میں جھونک دے گا۔ وہ ملک جس سے آپ کو بے پناہ محبت ہے۔ اگر آپ کو یہی کچھ کرنا تھا تو ہمارے دلوں میں امید کی شمع روشن کیوں کی، ہمارے قلوب کو شاد کیوں کیا اور روشن مستقبل کی نوید کیوں سنائی؟ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ ہم مکمل تباہی کی طرف تیزی سے جا رہے تھے۔ تباہی کے اس سفر کو کیوں روکا؟ ہمیں اپنے انجام کو پہنچنے دیتے، کم از کم اذیت تو ختم ہوجاتی، پھر سے زندہ رہنے کی امید دلا کر ہماری اذیت کی مدت میں اضافہ کیوں کر دیا؟
دراصل ہوا یہ تھا کہ سفیر محترم کی تجویز ایوب خان کو کچھ زیادہ اچھی نہیں لگی تھی اور انہوں نے لکھ بھیجا تھا کہ بادشاہت کیسی بھی ہو مگر آج کے زمانے میں اس کی طرف رجوع کرنا بے محل معلوم ہوتا ہے۔ جواباً موصوف نے دہائی دی کہ میری ناقص رائے میں ریاست کے لئے بادشاہت کا نظام ابھی فرسودہ نہیں ہوا۔ آج کی دنیا میں بھی بادشاہتیں نہ صرف قائم و دائم ہیں بلکہ فروغ پذیر بھی ہیں۔ ان کی کامیابی کا یہ عالم ہے کہ کسی طرح کا بھی کوئی اور نظام انہیں نیچا دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اپنے مؤقف کی حمایت میں نادر دلائل کا ڈھیر لگاتے ہوئے مزید فرمایا کہ اس کی کیا ضمانت ہے کہ آپ کا مجوزہ آئین کامیاب تجربہ ہو گا۔ اگر یہ ناکام ہو گیا تو قوم کا خواہ مخواہ ایک برس برباد ہو جائے گا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ملک کو بادشاہ کی شکل میں ایک باپ سمان حکمران کی ضرورت ہے۔ کسی ایسے صدر کی نہیں جو اپنی بقا کے لئے بار بار ووٹ مانگنے پر مجبور ہو اور اسی چکّر سے ہی نہ نکل پائے۔ صدر ایوب کو مزید ہلاشیری دی گئی کہ عوامی ردّعمل کی پروا نہ کریں، وہ بہرصورت مثبت ہوگا۔ بادشاہت کے راستے کی ممکنہ مشکلات دور کرنے کیلئے موصوف نے اپنی خدمات بھی پیش کیں کہ اگر انہیں موقع دیا جائے اور مناسب سہولتیں فراہم کر دی جائیں تو وہ محض چھ مہینے میں سب ٹھیک کر لیں گے۔ اب تک آپ یقیناً سفیر محترم کا نام جاننے کے لئے بے قرار ہو چکے ہوں گے، جو میں نہیں بتائوں گا…وجہ؟ کچھ تو پردہ داری اور کچھ یہ کہ کیا لازم کہ سب کچھ لکھنے والے ہی کریں، تھوڑا بہت تحقیقی کام تو آپ کو بھی کرنا چاہئے۔
تازہ ترین