سال 2023 میں کراچی کی متعدد عمارتوں میں آگ سے شہریوں کو بڑا جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ محکمہ فائر بریگیڈ کی کارکردگی پر ہمیشہ سوالیہ نشان اٹھتے رہے ہیں۔
دنیا کے پانچویں بڑے شہر کراچی کا آگ بجھانے کا نظام بین الاقوامی معیار کے مطابق 10 فیصد سے بھی کم پر چل رہا ہے۔
کراچی کے محکمہ فائر بریگیڈ کا عالم یہ ہے کہ اگر گاڑی موجود بھی ہوتی ہے تو ڈرایئور نہیں ہوتا۔ وفاقی حکومت نے ایک ارب روپے سے زائد کی لاگت سے 50 فائر ٹینڈر منگوائے جن میں 26 فائر ٹینڈر کے ایم سی کو جبکہ سائٹ، لانڈھی، کورنگی، نارتھ کراچی، اور فیڈرل بی ایریا سمیت ہر انڈسٹریل ایریا کو 2، 2 فائر ٹینڈرز دیے گئے ہیں۔
ان فائرٹینڈرز کو نفری اور ڈرائیور سمیت مطلوبہ تکنیکی سہولتوں کی فراہمی کے ایم سی کی ذمہ داری ہے لیکن ان کے پاس خود افرادی قوت کی کمی ہے تو ان سب کو کیسے پورا کریں۔
اس کے علاوہ کے پی ٹی، بن قاسم پورٹ رینجرز اور سی پی ایل سی کو بھی دو دو فائر ٹینڈرز فراہم کیے ہیں لیکن یہ ادارے افرادی قوت کے خود ذمہ دار ہیں۔
سابق میئر کراچی وسیم اختر کے دور میں بھی فائر ٹینڈرز کےلیے ڈرائیورز بھرتی کرنے کی کوشش کی گئی تاہم سندھ حکومت آڑے آگئی اور کے ایم سی کو صوبائی حکومت نے اتنا بےاختیار کرکے رکھا ہوا ہے کہ ان نئے فائر ٹینڈرز کےلیے بھرتیاں کرنا چاہیں بھی تو انہیں روک دیا جاتا ہے اور آج بھی 160 فائر ٹینڈرز کے ڈرائیورز کی آسامیاں خالی ہیں۔
سندھ حکومت کے ترجمان اور موجودہ میئر کراچی کو چارج لیے کئی ماہ ہوگئے ہیں لیکن اب تک فائر ٹینڈرز کےلیے ڈرائیورز کی کمی پوری نہ کی جا سکی۔