• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیاست بھی کیا عجیب چیز ہے۔ پورے ملک کو ایک ایسے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا یا گیا ہے جو کہیں جانیوالا نہیں کیونکہ اس کے اندر ایک نہیں بلکہ کئی ڈرائیور ہیں جس میں ہر ایک اس ٹرک کو اپنی پسند کی سڑک اور پگڈنڈی اور اپنے گائوں کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔ فوج طالبان سے لڑ رہی ہے مگر طالبان مذاکرات اخبار نویسوں سے کررہے ہیں یا کچھ مولانا جو ایک جمہوری نظام میں تو کبھی اہمیت حاصل کرہی نہیں سکتے ان کو موقع مل گیا ہے کہ وہ پوری قوم کے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ فوج اپنی جگہ لڑائی کو تیار ہے اور طالبان اپنی جگہ خودکش بمبار بھیج رہے ہیں مگر بات چیت ان لوگوں کے درمیان ہورہی ہے جن کے ہاتھ میں نہ تلوار ہے نہ بندوق اور نہ ان کی بات کوئی سنے گا۔ تو یہ سارا شور شرابا کیا ہے۔ ضرورت امن کی ہے مگر بات شروع شریعت سے ہورہی ہے، اب یہ کسی کو نہیں معلوم کہ کس کی اور کونسی شریعت ملک میں قائم ہوگی۔ اچھا ہوتا کہ پہلے طالبان اور سارے مولانا بیٹھ کر ایک شریعت پر اتفاق کرلیتے اور پھر باقی لوگوں سے کہتے کہ ہم تو متفق ہوگئے اب آپ بھی مان جائو۔ میں اگر یہ کہوں کہ یہ سارے مولانا اور سارے طالبان کبھی ایک شریعت پر اکٹھے نہیں ہوسکتے تو کچھ زیادہ غلط نہیں ہوگا۔ اس لئے اب کس کی شریعت بزور شمشیر یا بزور خود کش بمبار منوائی جائے یعنی جس کی لاٹھی زیادہ مضبوط ہوگی اس کی بات چلے گی تو بات پھروہیں آ جائے گی کہ تگڑی لاٹھی تو فوج کے پاس ہے ہیلی کاپٹر گن شپ بھی ہیں،F16 طیارے بھی ہیں اور ٹینک اور توپیں بھی۔ فیصلہ تو پھر طاقت کے بل بوتے پر ہی ہونا ہے، اگر طالبان کے کچھ دھڑے جنگ بندی یا سیز فائر پر تیار ہوجاتے ہیں تو باقی دھڑوں کا کیا ہوگا۔ مطلب یہ کہ پہلے طالبان متفق ہوں کہ سب کس فیصلے پر عمل کرنے کو تیار ہیں اور سب مل کر جو بھی میثاق صلح ہوگا اس پر عمل کریں گے۔ ایسا مشکل ہی نہیں ناممکن ہےکیونکہ سارے طالبان کسی ایک لیڈر کی بات تو مانتے نہیں۔کسی کو کہیں سے فنڈ آرہے ہیں اور کسی کی لائن دور پار کے دیشوں سے ملی ہوئی ہے۔ بیچ میں القاعدہ اور غیر ملکی بھی موجود ہیں تو یہ دال گلنے والی نہیں اور ہوگا وہی جو ہونا ہے یعنی آپریشن اور جنگ… اب اس خطرے کو دیکھتے ہوئے حکومت اور طالبان دونوں براہ راست مذاکرات سےکترا رہے ہیں اور فوج بیچ میں سینڈوچ بن گئی ہے۔ ویسے اور بھی کئی سینڈوچ اس معاملے میں ملوث ہیںمگر سب کو انتظار موسم کے ٹھیک ہونے کا ہے۔ ذرا سردی کم ہوگی تو سب کی طبیعت گرم ہونا شروع ہوجائے گی۔ اس صورتحال میں حکومت کے لوگوں کو شدید جلدی ہے کہ جو مال پانی بن سکتا ہے فوراً سے پیشتر بنا لیا جائے۔ PIA کو فوراً بیچا جائے مگر اس سے پہلے آٹھ دس جہاز ضرور کرائے پر لئے جائیں تاکہ کچھ دال دلیہ چل سکے۔ ہر ادارے پر اپنا ایک ایسا بندہ بٹھا دیا جائے جو کسی کام میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ ان اداروں میںاسٹیٹ بنک، PIA، نادرا،اسٹیل مل، Ptv نجکاری کمیشن اورکئی دوسرے۔وہ ساری کہانیاںکہ اشتہار دئیے جائیں گے اور دنیا بھر سے بہترین لوگ چنے جائیں گے اب قصے کہانیاں ہی رہ گئے۔ آج جنگ گروپ کے انگریزی اخبار دی نیوز میں تفصیل کے ساتھ معلوماتی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اربوں کھربوں کے فیصلے کس طریقے سے کون لوگ اور کتنی جلدی میں کروا لیتے ہیں۔ اس رپورٹ میں نہ صرف سرکاری دستاویزات موجود ہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے ان کی اپنی آواز میں یہ اعترافات بھی موجود ہیں کہ یہ کام انہوں نے کروایا اور جلدی میں کروایا۔ اس رپورٹ کے ساتھ انٹرنیٹ اور یو ٹیوب پر بھی ایک پیکج سامنے آرہا ہے جس میں یہ سارے اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ خود چیخ چیخ کر بول رہے ہیں کہ ہم نے حکومت پر دبائو ڈال کر اپنی مرضی کے ٹیکس سسٹم کا اجرا کروایا ہے۔ اس چکر میں قومی خزانے کو اربوں کا نقصان ہوگیا وہ مانتے ہیں لیکن ان کی اور ان کی بزنس اور کمپنیوں کی جیبیں تو بھر گئیں اور وزیر اعظم صاحب خوش ہیں کہ ملک بالکل ٹھیک چل رہا ہے۔
ادھرسندھ میں جو بچا کھچااقتدارابھی زرداری صاحب اور ان کی پارٹی کو ملا ہوا ہے وہ اس پر بھی خوش ہیں کیونکہ نہ صرف انہیں ایک صوبے کی حکومت ملی ہوئی ہے اور جان بچانے اور چھپ کر بیٹھنے کا ٹھکانہ ملا ہوا ہے بلکہ اداروں کے بجٹ بھی ملے ہوئے ہیں اور خوب موقع ملا ہے کہ سارے چور اور ڈاکو ان کی پناہ میںآرام سے رہ سکتے ہیں بلکہ ان کو بڑی بڑی کرسیوں پر بھی بٹھایا جارہا ہے جیسے ایک ڈاکٹرصاحب ہیں۔ کئی کیسوں میں عدالت میں پیش ہوتے ہیں مگر حکومت سندھ نے انہیں علم کے سب سے بڑے ادارے کا سربرا ہ بنا دیا ہے، ادھر بلاول صاحب ناچ گانے اور اچھل کود سے ہی فارغ نہیں ہو پارہے۔ شاید وہ سمجھ رہے ہیں کہ سیاست مزے اڑانے کا نام ہے اور جب تک دائو لگے لگاتے رہو۔ کم از کم ان کے والد نے یہی سبق ان کو سکھایا ہے۔ سندھ کی ثقافت کے نام پر سارے دوست احباب مل کر کروڑوں اربوں کا خرچہ کرتے رہے مگر اصلیت یہ سامنے آئی کہ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کے شہر خیرپور کے پاس خود بلاول کے خاص دوستوں کو ڈاکوئوں نے لوٹ لیا اور سارے موبائل اور کیش لے کر یہ جا ، وہ جا۔ خیرپور سے تو خیر کی خبر نہیں آئی مگر ان دوستوں کا بہرحال حکومت کسی نہ کسی کے کھاتے سے نقصان پورا کر ہی دے گی۔ سندھ کی ثقافت میں ڈاکو اور لوٹ مار کا نہ ہونا کس کو اچھا نہیں لگا اس لئے خود بلاول کے دوستوں پر ہی ہاتھ صاف کردیا۔ یہ کام تو چور اچکے اور ڈاکو ہی کرسکتے ہیں مگر فیصل آباد کے شیر کے مطابق خود باجی نواب شاہ کا پورا حلقہ ہی چوری ڈاکے پر اتر آیا ہے۔ انہوں نے زوردار آواز میں فرمایا ہے کہ باجی نواب شاہ کے حلقے کا 98.8 فیصد بجلی چوری کرتا ہے۔ شاید جو باقی 0.2 فیصد لوگ بچے ہیں ان میں باجی اور ان کے شوہر اور بھائی ہی ہوں گے ورنہ تو اگر وہ بھی چوری میں شامل ہوئے تو یہ 0.2 فیصد کی جان خطرے میں آ جائے گی کہ کیسے وہ سب کے ساتھ مل کر اتفاق اور یگانگت کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ کہانی دراصل یہ ہے کہ ہر ایک لوٹ مار میں اس طرح لگا ہے جیسے اسے کل کا انتظار ہی نہیں اور بھروسہ ہی نہیں کہ کل آئیگا بھی یا نہیں اور ملک میں کوئی انصاف پر مبنی نظام ہوگا بھی یا نہیں۔ ہر ایک چاہے وہ وزیر اعظم کے دوست ہوں یا زرداری صاحب کے رشتہ دار سب جلدی میں ہیں کہ کہیں طالبان اگر آگئے تو پھر سڑکوں پر چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اورکھمبوں پر لاشیں لٹکتی نظر آئیں گی۔ یہ بھی ڈر ہے کہ کہیں چھپے ہوئے راز کھل گئے تو کیا ہوگا، جیسے 35 پنکچروں کی کہانی جومئی کے انتخاب میں ن لیگ کیلئے آخری وقت میں لگائے گئے اور جن کی بازگشت اب سارے ملک میں پھیل رہی ہے جو بھی ہو کچھ لوگوں کو جوابات تو دینے ہوں گے کیونکہ اگر یہ ملک باقی رہنا ہے اور کسی نظام کے تحت چلنا ہے تو پھر کسی نہ کسی کو ڈنڈا تو اٹھانا ہی پڑے گا۔ اب یہ ڈنڈا کوئی طالبان کا حامی لے کر آتا ہے یا کوئی دیانتدار فوجی یہ دیکھنا ہوگا۔ چور تو کسی چور کو نہیں پکڑے گا۔
تازہ ترین