مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
شمسی سال2023ء اپنے اختتام پر ہے اور نئے عیسوی سال کا آغاز ہونے والا ہے۔ گویا کہ تیزی کے ساتھ ایک سال کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے، ہمیں زمانے کی اس تیزرفتاری کےساتھ اپنے اعمال اور زندگی کا محاسبہ کرنا چاہیے،بڑی تیزی کے ساتھ گزرنے والے سال ، مہینے، ہفتے اور ایام درحقیقت انسانی زندگی کو اختتام کی جانب بڑھارہے ہیں ، جو وقت گزر گیا، وہ دوبارہ انسان کے ہاتھ نہیں آسکتا۔ زمانے کا اس تیزی کے ساتھ گزرنا جو ہم دیکھ رہے ہیں، یہ بھی قیامت کی علامات میں سے ہے۔
ترمذی شریف میں حضرت انس بن مالک ؓسے ایک روایت منقول ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ زمانہ قریب نہ ہو جائے گا ( یعنی زمانے کی گردش تیز نہ ہو جائے گی اور دن و رات جلد جلد نہ گزرنے لگیں گے اور زمانے کی تیز رفتاری اس کیفیت وحالت کے ساتھ ہوگی کہ ) سال مہینےکے برابر ، مہینہ ہفتےکے برابر ہو جائے گا اور ایک گھنٹہ اتنا مختصر ہو جائے گا جیسے آگ کا شعلہ (گھاس کے تنکے پر ) سلگ جاتا ہے (یعنی جھٹ سے جل کر بجھ جاتا ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اوقات میں برکت ختم ہوجائے گی، زمانے کی گردش بڑی تیز ہوجائے گی، وہ جو ہم کتابوں میں ،تاریخ میں اپنے بزرگوں اور اسلاف کےبارے میں پڑھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اوقات میں ایسی برکت رکھی تھی کہ معمولی وقت میں وہ اتنا کام کرلیا کرتے تھے کہ ہم کئی دن بلکہ کئی ماہ میں وہ کام نہیں کرسکتے۔ اسود بن یزید نخعی ؒ ایک بزرگ گزرے ہیں ،ان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ رمضان میں فقط دوراتوں میں پورا قرآن کریم مکمل فرمالیا کرتے تھے، اور ان کی نیند کا وقت صرف مغرب سے عشاء تک ہوا کرتاتھا۔
امام بخاری ؒ کی سیرت میں لکھا گیا ہے کہ وہ ایک رات میں ایک قرآن مکمل فرماتے تھے۔ سعید بن جبیرؒ جلیل القدر تابعین میں سے ہیں ، حجاج بن یوسف نے انہیں شہید کیا تھا، ان کے بارے میں لکھا ہواہے وہ فرماتے تھےمیں نے بیت اللہ میں ایک رکعت میں مکمل قرآن کریم پڑھا ہے۔یہ ان کے اوقات میں برکت کی علامت تھی۔ آج ہمارے اوقات میں یہ برکت نہیں ، ہم میں سے بہت سارے افراد اپنی زندگی پر غور کریں تو یہ اعمال جو ہمارے بزرگ فقط ایک دن یا ایک رات میں کیا کرتے تھے، ہم کئی ماہ میں بھی نہیں کرسکتے۔ اس لیے ہمیں اپنی زندگی اور اعمال پر غور کرنا چاہیے کہ اتنی طویل زندگی گزار کر ہم کس قدر نیک اعمال میں حصہ لے رہے ہیں، فرائض، واجبات اور سنتوں کا کس قدر ہماری زندگی میں اہتمام ہے۔
قرآن کریم کی سورۂ حشر میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس جانب متوجہ فرمایا ہے ، ارشاد ہے :اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو، اور ہر نفس، ہرجان، ہرشخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے یعنی آخرت کے لیے کیا سامان بھیجا ہے،اپنی مغفرت کے لیے کیا اعمال آگے بھیجے ہیں؟اور خوب اللہ سے ڈرتے رہو،جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔
مفسرین لکھتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کو ’’غد ‘‘کے لفظ سے بیان فرمایا ہے، اور عربی زبان میں آنے والے کل کو ’’غد‘‘کہتے ہیں، گویا اس لفظ کے ذریعے انسانیت کو یہ سمجھانا مقصود ہےکہ کل دنیا اور اس کائنات کی ساری عمر آخرت کے مقابلے میں ایک دن سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی، کائنات کی ساری عمرایک دن کی حیثیت سے زیادہ نہیں رکھتی تو انسان کی تو عمر ہی کیا ہوتی ہے چند سال ،تو ان کی کیا حیثیت آخرت کے مقابلے میں، لہٰذا انسان اپنی زندگی اور اس کے اوقات کی قدر کرنے والا بنے۔
اس آیت میں ایک اور بات بھی سمجھانی مقصود ہے کہ قیامت کا آنا اسی طرح یقینی ہے جیسے کل کا آنا یقینی ہوتاہے۔ تیسرا اشارہ اس آیت میں اس جانب بھی ہے کہ قیامت بہت ہی قریب ہے جیسے آج کے بعد کل کا آناقریب ہے۔بخاری شریف میں ہے کہ حضورﷺنے قیامت کے متعلق یوں بیان فرمایا تھا کہ جس طرح شہادت کی اور درمیان والی انگلی قریب قریب ہیں، اس طرح میری بعثت بھی قیامت کے بالکل قریب ہوئی ہے۔
سورۂ حشر کی مذکورہ آیت میں ہمارے لیے تنبیہ ہے کہ انسان سوچے کہ اس نے قیامت کے لیے اپنی دائمی زندگی کے لیے کیا اعمال کیے ہیں ؟اگر نیک اعمال ہوں گے تو اجر پائے گا اور اگر اعمال بد ہوں گے تو انسان کو وہاں سزا بھگتنی پڑے گی۔ یہ آیت ہمیں اپنے اعمال کے احتساب کی دعوت دے رہی ہے۔
ایک حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺنے فرمایا : کیا میں تمہیں تم میں سے اچھے افراد کی نشاندہی نہ کروں ؟یعنی تم میں سے بہترین لوگ کون ہیں؟ان کے بارے میں مطلع کروں؟صحابہ کرامؓ نے فرمایا: ضرور ارشاد فرمایئے۔
رسول اللہ ﷺنے فرمایا : تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں، جن کی عمر بھی طویل ہو اور اعمال بھی اچھے ہوں۔ اس حدیث میں بھی ہمارے لیے سبق ہے کہ ہم اپنی گزشتہ زندگی کا، سال کا جائزہ لیں ،محاسبہ کریں کہ کس قدر ہماری زندگی بامقصد کاموں میں گزررہی ہے، اور کتنا وقت ہم فضول کاموں میں خرچ کررہے ہیں، اس محاسبے سے اپنے لیے ایک راہ متعین کریں، اگر ہماری زندگی فضولیات میں صرف ہورہی ہے تو اپنے آپ کو ان فضول مشغولیات سے بچانے کی کوشش کریں۔
ترمذی شریف میں حضرت ابوبَرزہ الاسلمی ؓ کی روایت ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے قدم اپنی جگہ سے اس وقت تک نہیں ہٹ سکیں گے جب تک کہ اس سے یہ سوال نہ کیا جائے کہ اس نے اپنی عمر کہاں گزاری ؟
حضرت امام غزالی ؒ امت کے بڑے عالم گزرے ہیں ،دنیا انہیں حجۃ الاسلام ،اور امام کے القاب سے یاد کرتی ہے، انہوں نے اپنی زندگی میں سو سے زیادہ کتب لکھی ہیں، اور جس موضوع پر لکھا ہے اس کا حق ادا کیا ہے۔ اپنی بعض کتب میں اپنے نفس کے محاسبے کے لیے اپنے آپ کو خطاب کرکے فرماتے تھے کہ: ’’اے نفس! انصاف کر، یعنی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام انسانی نفس قبول نہیں کرتا، نافرمانی میں لگا رہتا ہے، تو کہا کہ اے نفس، انصاف کر،اگر کوئی یہودی کہہ دیتا ہے کہ فلاں غذا نقصان دہ ہے تو تو اسے فوراً چھوڑ دیتا ہے ، اور اس کی خاطر تکلیف اٹھاتاہے، تو کیا انبیاء کا قول اور ان کی تعلیمات اور ان کے احکام تمہارے لیے اس سے کم اثر رکھتے ہیں؟!حالانکہ اس یہودی کا قول صرف قیاس اور اندازہ ہے،جب کہ انبیاءؑ کی تعلیمات وحی الٰہی پر مبنی ہیں، معجزات کے ذریعے انبیاء ؑکی تائید کی گئی ہے، پھر ان کی باتیں قبول کرنے میں اے نفس!تو تأمل سے کام لیتا ہے؟اے نفس! تجھے یہ سب باتیں معلوم ہیں ان پر تیرا ایمان ہے ، پھر کیوں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے‘‘۔
من جملہ اور چیزوں کے بطور خاص انسان کو اپنی گفتگو اور کلام کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں ایسی باتوں میں دن رات نہ لگا ہوا ہوجو آخرت میں پکڑ کا سبب بنیں، ایک حدیث میں مفلس اس شخص کو کہا گیا ہے کہ جس کی زبان کی لغزشوں کی وجہ سے بھی قیامت میں وہ اپنے نیک اعمال سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
مؤطا امام مالک کی روایت میں ہے کہ سیدنا عمر ؓ کا صدیق اکبر ؓ کے پاس سے گزر ہوا ،دیکھا کہ صدیق اکبر ؓ اپنی زبان کھینچ رہے ہیں، حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ ٹھہریئے ، ایسا مت کیجیے، اللہ آپ کی مغفرت فرمائے، تو صدیق اکبر ؓنے فرمایا: اس زبان نے تو مجھے ہلاکتوں میں ڈال دیا ہے۔
یہ وہ عظیم ہستی ہیں، جو اپنی زبان اور اپنے کلام کا محاسبہ فرمارہے ہیں کہ جن کے لیے قیامت کے دن جنت کے آٹھوں دروازے منتظر ہوں گے، متمنی ہوں گے، مشتاق ہوں گے۔ تو ہم کیسے مطمئن ہوکر بیٹھ سکتے ہیں ؟ہمیں ہمہ وقت اپنے کلام کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ غرض !اعمال ہوں ، یا افعال ، گفتگو ہو یا کردار انسان کو اپنی زندگی کے ایک ایک فعل اور ایک ایک گھڑی کا محاسبہ کرنا چاہیے، کوئی عمل ایسا نہ ہو جس کی وجہ سے قیامت میں انسان کو پشیمانی اٹھانی پڑے۔