• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2023 ء میں بے حد مختلف دنیا کے رنگ دیکھنے کو ملے۔ایک ایسی دنیا جو اپنی کیفیت، مزاج اور احوال میں گزرے ہوئے زمانوں سے بالکل الگ نظر آئی، اور لگتا ہے کہ ہزار جتن کرکے بھی اس سے اب الگ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اس کے اثرات سے خود کو کسی طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یوں تو اس مسئلے کو پوری طرح سمجھنے کے لیے خاصے تفصیلی مطالعے اور غور و فکر کی ضرورت ہے، لیکن اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو صرف اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ قوموں اور معاشروں کی زندگی میں آنے والی تہذیبی و سماجی تبدیلی کا کوئی بڑا نشان تقویمِ ماہ و سال کے مختصر دورانیے (مثلاً ایک سال) سے اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ 

دوسری طرف آج یہ عالم ہے کہ تھوڑے تھوڑے عرصے بعد آپ اپنے یہاں آنے والی کسی نہ کسی تبدیلی کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ پاتے۔ اس لحاظ سے ہمارا دور اور ہماری دنیا اگلے وقتوں سے اس حد تک مختلف ہے کہ اس سے پہلے کی ہزاروں برس کی دنیا کے کسی بھی دور سے اس کا موازنہ کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آج کی دنیا میں جو چیزیں ہمارے مشاہدے اور تجربے میں آرہی ہیں، وہ اَن ہونی ہیں۔ 

بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہے جیسا ہم دیکھتے اور چاہتے ہیں، کچھ اچنبھا اس میں نہیں ہے، لیکن جب ہم اپنی روزمرہ زندگی اور اپنے آس پاس رونما ہونے والے حقائق اور واقعات پر ذرا گہری نظر ڈالتے ہیں اور ان کے اثرات کی نوعیت کے بارے میں غور کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی کچھ اَن ہونی سی ہو رہی ہے۔ اس زمانے اور اس کے بنتے بگڑتے نقشے کے بدلتے احوال کو جاننے اور سمجھنے کے لیے آپ اس سال، یعنی ۲۰۲۳ءکے صرف دو پہلوئوں کو پیشِ نظر رکھ کر جائزہ لیجیے تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ آپ اس وقت کس دنیا میں جی رہے ہیں، اس کے حقائق کیا ہیں اور وہ آگے کس طرف جارہی ہے۔وہ دو پہلو ہیں:

۱۔ زندگی میں خیر و شر کا رویہ۲۔ باہمی انسانی مراسم

پہلے معاملے کو دیکھا جائے تو اس وقت ہر انسانی سماج (جہانِ اوّل کی ترقی یافتہ اقوام سے لے کر جہانِ سوم کے پس ماندہ ممالک تک) میں آپ کو یہ صورتِ حال صاف دکھائی دے گی ،خصوصاً ان ممالک اور اقوام میں جہاں خیر و شر کا کوئی واضح اور محکم تصور آج بھی پایا جاتا ہے اور عوامی زندگی پر کسی نہ کسی درجے میں اس کے اثرات بھی ہیں، علاوہ ازیں جہاں سماجی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار کا نظام قائم ہے۔ 

اس وقت پوری دنیا میں خصوصی طور پر خوش حال اور ترقی یافتہ اقوام اور ان کے زیرنگیں ملکوں میں بھی خیرو شر کا حدودِ اربعہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور ان کی حدیں آپس میں یوں ملتی چلی جارہی ہیں کہ وہ ایک دوسرے کا حصہ بنتے معلوم ہو رہے ہیں اور ان کے مابین اب امتیاز مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔

انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر تہذیب خواہ وہ مشرق کی ہو یا مغرب کی، اس میں اب تک روشنی، سفیدی یا نور خیر کی علامت رہا ہے جب کہ تاریکی، سیاہی یا ظلمت شر سے موسوم۔ تاہم آج کتنے ہی سماج ہماری دنیا میں ایسے ہیں کہ جہاں سفید و سیاہ آپس میں اس طرح آمیز ہوئے جاتے ہیں کہ ان کی علاحدہ شناخت مٹتی جا رہی ہے۔ 

ایسے معاشروں میں سفید اور سیاہ کے ملنے سے ایک سرمئی منظرنامہ ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ ان معاشروں پر توجہ دینے اور اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں خیر کا شعور اور شر کا احساس ختم رہا ہے اور یہ کام اب اقوامِ عالم میں ترقی، انسانی آزادی، بنیادی حقوق اور جدیدیت کے دل کش سرناموں کے ساتھ وقوع پذیر ہو رہا ہے۔

اہلِ روایت و ہدایت کہتے ہیں کہ انسان کا خمیر خیر سے اٹھایا گیا ہے، یعنی اُس کی فطرت میں خیر ہے، لہٰذا وہ خیر کو پسند کرتا ہے۔ اگر اس کی فطرت میں ناقابلِ تبدّل ٹیڑھ پیدا نہیں ہوئی ہے تو وہ ہر ممکن طریقے سے خیر کی طرف مائل رہتا ہے۔ اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ جن معاشروں میں خیروشر کا فرق ختم ہو رہا ہے وہاں دراصل انسانی فطرت کو بدلنے، اس میں کجی پیدا کرنے یا دراڑ ڈالنے کا کوئی غیر معمولی اہتمام کیا گیا ہے۔ 

مثالیں تو کئی ایک دی جاسکتی ہیں، لیکن اگر آپ جہانِ اوّل کی روشن، ترقی یافتہ اور انسانی حقوق کی آزادی و پاس داری کے نعروں سے گونجتی دنیا میں حرمت والے رشتوں کی بے حرمتی، جنس زدگی (بطورِ خاص ہم جنس پرستی) اور وحشت و بربریت کے بڑھتے ہوئے رویوں کا جائزہ لیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ 2023 ء میں ایسے واقعات کی روزانہ شرح میں جس رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے، وہ نہایت تشویش ناک ہے اور اس حقیقت کا عکاس بھی کہ آزادی، ترقی اور روشن خیالی کے ان نعروں نے درحقیقت انسانی فطرت کو کس تاریک راستے پر دھکیلا ہے۔

رہی بات دوسرے پہلو، یعنی باہمی انسانی مراسم کی تو اُس کی بابت زیادہ کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس مسئلے کا اندازہ محض اسی ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس جدید اور مابعد جدید عہد کی دنیا کے انسانوں میں مغائرت کا رویہ اور تنہائی کا احساس تیزی سے بڑھتا چلا جارہا ہے۔ انسانی مراسم کے یہ دونوں پہلو آج کے انسان کی زندگی کو کس طرح لایعنی بنا رہے ہیں اور کیسے اسے اپنی ذات کے خول میں بند کر رہے ہیں، اس کا تعین کرنے کی کوشش میں انسانی صحت اور ذہنی صحت کے بین الاقوامی اداروں نے امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے ممالک سے جو اعداد و شمار جمع کیے ہیں، ان پر ایک نظر ڈال لیجیے۔

یہ اعداد و شمار ۱۶ سے ۶۵ سال کے افراد کے حوالے سے جمع کیے گئے ہیں۔ امریکا میں ذہنی امراض میں مبتلا خواتین کا ۳۱ اور مردوں کا تناسب ۳۷ فی صد ہے۔ برطانیہ میں یہ شرح بالترتیب ۳۱ اور ۳۲ فی صد ہے۔ ان مریضوں میں ۷۰ فی صد سے زائد افراد کی عمر ۲۴ سے ۴۰ سال کے درمیان ہے۔ عالمی ذہنی صحت کے اداروں کا کہنا ہے کہ ان امراض میں مبتلا ہونے والے افراد میں ۸۳ فی صد افراد کی بیماری کا آغاز تنہائی یا پھر کسی خوف کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔ ایسے کچھ مریض ابتدا میں اپنی کیفیت سے چھٹکارے کے لیے منشیات، جنس، جوئے اور جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں اور پھر ان میں سے اکثر اس دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ انھیں واپسی کا راستہ نہیں ملتا یا پھر واپسی کا خیال ان کی زندگی میں ناقابلِ عمل ہو جاتا ہے۔

یہ تو ہوا عالمی منظرنامہ۔ اب آپ آئیے اپنے سماج کی طرف۔ ہمارے یہاں بھی خیر و شر کے تصور اور اس کے حوالے سے اقدامات کی صورتِ حال وہ نہیں ہے جو چند دہائی پہلے تک ہوا کرتی تھی۔ ہمارے یہاں بھی رویے بہت تبدیل ہوئے ہیں اور مزید ہوتے چلے جارہے ہیں۔ آج ہمارے یہاں خیر کی طرف سے اغماض برتنے، منہ پھیر لینے یا لاپروائی اختیار کرنے کا رجحان اس درجہ بڑھ چکا ہے کہ جو چیزیں کل تک ہمارے معاشرے میں ممنوع، ناگوار اور بری خیال کی جاتی تھیں، آج وہ قابلِ قبول ہوتی جارہی ہیں، بلکہ خاصی حد تک ہوچکی ہیں۔ اب اُن کے بارے میں نہ کوئی سوال اٹھاتا ہے اور نہ ہی لوگوں میں اس کے لیے الجھن کا احساس نظر آتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی معاشرہ مکمل طور پر خیر سے خالی نہیں ہوتا تو پوری طرح شر سے بھی خالی نہیں ہوتا، لیکن اس جدید عہد کی دنیا کے ساتھ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ آج انسانی معاشرے میں ان دونوں کا تناسب نہ صرف تبدیل ہو رہا ہے، بلکہ اس حد تک ہوچکا ہے کہ سماج کی کایا پلٹ رہی ہے۔ خدانخواستہ اگر تناسب کی تبدیلی کی شرح یہی رہی تو خاکم بدہن آنے والے دور میں خیر کا تصور ہی ختم ہو جائے گا۔ ہمارا معاشرہ اب واضح طور پر دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔ 

ایک وہ جو مذہبی احکام، اخلاقی اقدار اور سماجی نظام میں سرے سے یقین ہی نہیں رکھتا اور آزادی، حقوق اور روشن خیالی کے نام پر اپنی تمام قدروں کی نفی پر مصر ہے۔ ان تصورات اور خیالات کے حامل لوگوں کی شرح ہمارے سماج کے خوش حال، متوسط اور پس ماندہ تینوں طبقات میں ہے۔ اوّل الذکر میں سب سے زیادہ اور باقی دو میں قدرے کم۔ 

اسی طرح دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو بڑی شدومد سے مذہبی، اخلاقی اور سماجی قدروں اور نظام پر زور دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا تناسب خوش حال طبقے میں قدرے اوسط درجہ اور باقی دو طبقات میں خاصا زیادہ ہے۔ سب سے بڑی اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ دونوں طرف کے لوگوں میں شدت پسندی کا رجحان غالب ہے۔

شدت یا انتہا پسندی اس عہد میں ایک عالمی مسئلہ ہے۔ یہ بات ترقی یافتہ ممالک میںبھی تسلیم کر لی گئی ہے کہ انتہا پسندی دیمک کی طرح خاموشی سے ان کے معاشروں میں سرائیت کر رہی ہے۔ اہلِ دانش کا کہنا یہ ہے کہ اس کے دو بنیادی اسباب ہیں:

اوّل: مادیت کا فروغ

دوم: عام انسانی زندگی پر سیاست کے اثرات

یہ دونوں عوامل عالمی منظرنامے پر کس طرح سامنے آرہے ہیں اور اس عہد کے انسانوں کی نفسیات اور ذہنی رویوں پر ان کے کیا اثرات ہیں، یہ ایک الگ موضوعِ گفتگو ہے جو اس وقت ہماری بحث کے دائرے سے خارج ہے۔ ہمارے یہاں بھی ان دونوں عوامل نے عام انسانی زندگی کو ایک حد تک متأثر کیا ہے۔ اس کا کسی قدر اندازہ آپ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی صورتِ حال سے باآسانی لگا سکتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان اثرات کا دائرہ گزرتے وقت کے ساتھ وسیع سے وسیع تر ہو رہا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں خیر کا رویہ بالکل ہی ختم ہوتا جارہا ہے۔ وہ آج بھی اپنی جگہ قائم ہے اور جو لوگ خیر کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں، ان کی جستجو اور محنت بلاشبہ لائقِ تحسین اور قابلِ قدر ہے۔ اس کا ثبوت آپ کو ایدھی، چھیپا اور سیلانی جیسے اداروں کے کاموں سے فراہم ہوتا ہے۔ یہ اجتماعی سطح کے مظاہر ہیں۔ اپنی اپنی ذاتی حیثیت میں بھی لوگ خیر کے کام کرتے ہوئے ملتے ہیں اور وہ بھی کوئی معمولی کام نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود خیر کے مقابلے میں شر کا دائرہ نہ صرف بڑھا ہے، بلکہ مزید پھیل بھی رہا ہے۔

اعداد و شمار کے بین الاقوامی ادارے بتاتے ہیں کہ ۲۳ کروڑ سے زائد افراد کی آبادی والے ہمارے ملک میں ساڑھے تین کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جو گداگری کی کسی نہ کسی شکل سے وابستہ ہیں۔ ان میں ۸۱ فی صد سے زائد خواتین، بچے اور ایسے (بیشتر) مرد شامل ہیں جنھوں نے تیسری جنس کا روپ دھار رکھا ہے۔ ملک کے تین بڑے شہروں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں گداگروں کو دی جانے والی رقم کی اوسط بالترتیب ۱۷۵۰، ۱۵۸۰ اور ۱۱۲۰ روپے فی کس ہے۔ 

اسی طرح بڑے چھوٹے ادارے جو افراد کو مفت کھانا مہیا کر رہے ہیں، اُن کے یہاں اوسط تخمینہ فی کس ۴۹۵ روپے ہے اور صرف کراچی شہر میں ان اداروں کے پاس کھانا کھانے والے افراد کی روزانہ تعداد ۲۳ لاکھ ۷۱ ہزار سے زیادہ ہے۔ یہ سب ادارے لوگوں کے تعاون اور صدقات وعطیات کی رقم پر انحصار کرتے ہیں۔ کراچی، لاہور اور راول پنڈی اسلام آباد میں دو چار نہیں درجنوں افراد ایسے ہیں جو کئی کئی کروڑ روپے ہر سال ذمہ داری اور خاموشی سے زکوٰۃ کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ فلاحی کام کرنے والے اداروں کو سب سے زیادہ ایسے ہی افراد کا تعاون حاصل ہے۔ یہ ہمارے یہاں خیر کا منظرنامہ ہے۔

دوسری طرف کی صورتِ حال بھی دیکھ لیجیے۔ کراچی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۲۳ء میں اس شہر کے باسیوں سے گاڑیاں چھینے جانے کی ماہانہ اوسط ۱۲۰۰ سے زیادہ اور موٹر سائیکل ۷۷۰۰ سے زیادہ ہے۔ اسٹریٹ کرائمز کا مکمل اور مستند ڈیٹا دستیاب نہیں ہے، لیکن ایک اندازے کے مطابق کراچی میں ۱۹۲۰۰ سے زائد افراد روزانہ سڑک پر اور گلی محلوں میں ان وارداتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ 

لڑائی جھگڑے، دنگا فساد کی وارداتوں میں زخمی ہونے والے افراد کی روزانہ تعداد ۳۳۰۰ سے زیادہ ہے۔ یہ اور اس نوعیت کے دوسرے اعداد و شمار متعدد اداروں کی طرف سے جاری کیے جاتے ہیں، تاہم اُن کی بابت اس امر کا اعتراف بھی ساتھ ہی کیا جاتا ہے کہ یہ ڈیٹا دستیاب ریکارڈ اور حوالوں سے مرتب کیا جاتا ہے۔ اس لیے اسے حتمی اور جامع نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ اس کے ذریعے ملک کے مختلف شہروں کی سماجی صورتِ حال کے نقشے کو ضرور سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں کسی خاص ادارے کے اعداد و شمار پر انحصار نہیں کیا گیا، بلکہ ملکی اور بین الاقوامی سطح کے مختلف اداروں کے پیش کردہ کوائف کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے، صورتِ حال کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔

درجِ بالا سطور میں اپنے معاشرے میں کارفرما خیروشر کے عناصر اور اُن کے پیدا کردہ اثرات کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے۔ اب آئیے دوسرے پہلو، یعنی انسانی مراسم کی صورتِ حال پر۔

ہمارے معاشرے میں باہمی انسانی مراسم کا منظرنامہ بھی کچھ ایسا خوش کن نہیں ہے۔ افراد کے مابین رکھ رکھائو اور یگانگت کا جو رویہ تین چار دہائی پہلے تک عام طور سے پایا جاتا تھا اور جس کے مظاہر روزمرہ زندگی میں بار بار دکھائی دیتے تھے، وہ اب شاذ ہی کہیں دیکھنے کو ملتا ہے۔ رشتوں اور تعلقات کی نوعیت بہت سطحی اور سرسری ہوگئی ہے۔ بیشتر رشتے عام طور پر کسی ضرورت کی زنجیر سے بندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 

وہ جو انسان کو انسان سے ملنے اور ایک دوسرے کی قربت اور موجودگی کو محسوس کرنے اور اس کی سرشاری میں رہنے کا معاملہ تھا، وہ اب کم کم ہی سامنے آتا ہے۔ ایسا سماجی تعلقات ہی میں نہیں بلکہ خون کے رشتوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک گھر کے لوگوں کے درمیان میں قربت کے احساس کی اہمیت کا شعور غیر معمولی حد تک کم ہو رہا ہے۔ ایک چھت کے نیچے بیٹھے ہوئے لوگوں میں اب مغائرت کا عالم یہ ہے کہ سب اپنی اپنی دنیا میں یوں مصروف بلکہ گم ہیں کہ ایک دوسرے سے اسی طرح دور نظر آتے ہیں جیسے الگ الگ سیاروں کی مخلوق۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر چوتھا پانچواں شخص تنہائی اور بیگانگی کا شکار ، ذہنی دبائو میں مبتلا نظر آیا۔ ہمارے یہاں بھی اب وجودی سطح پر جینا محض ایک میکانکی عمل بن کر رہ گیا۔ ہر شخص ہجوم میں ہے، لیکن اکلاپے کے گہرے احساس کے ساتھ۔ گزرتے سال لوگوں میں نفسیاتی مسائل کا تناسب تشویش ناک حد تک بڑھا اور بڑھا رہا ہے۔ 

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک سروے کے مطابق ہمارے یہاں ڈپریشن، خوف، تنہائی اور گھٹن کے احساس کے ساتھ زندگی گزارنے والے افراد کا تناسب ۴ء۲۷ فی صد ہے۔ یہ ڈیٹا معالجین تک پہنچنے والے لوگوں کے ریکارڈ سے لیا گیا ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو پیروں، فقیروں اور عاملوں کے پاس جھاڑ پھونک کے لیے جاتے ہیں اور نہ ہی وہ افراد شامل ہیں جو اپنی ذات کے خول میں بند ہو کر خاموشی اور تیزی سے موت کے راستے پر سفر کرتے ہیں۔

گفتگو کے آغاز میں کہا گیا تھا کہ یہ ایک بے حد مختلف دنیا ہے جس میں آج آپ اور ہم سانس لے رہے ہیں۔ یہ دنیا کیا ہے اور کیوں مختلف ہے، اس کی ایک جھلک آپ نے گزشتہ سطور میں دیکھ لی۔ مقتدر قوتیں جو اس دنیا کے ساڑھے سات ارب باسیوں کو صرف اور صرف ایک کنزیومر سوسائٹی بنا کر رکھنا چاہتی ہیں، وہ کسی رکاوٹ اور ہچکچاہٹ کے بغیر ایک کے بعد دوسرا ایسا اقدام کر رہی ہے جس کے ذریعے اس ہجوم کو صارفیت کے ایسے چنگل میں جکڑ لیا جائے کہ وہ:

صبح ہوتی ہے، شام ہوتی ہے

عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

کے دائرے سے باہر نکل ہی نہ سکے۔ نکلنا تو دور کی بات اسے باہر نکلنے کا خیال تک نہ آئے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب آدمی معاشی ضرورتوں کی چکی میں پسنے سے فرصت ہی نہ پائے، اسے کسی اور چیز کا خیال ہی نہ آئے، زندگی کا مطلب تعیشات کے حصول کی دوڑ میں آنکھیں بند کرکے دوڑنا ہو کر رہ جائے۔ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کی لگ بھگ آدھی آبادی تو اسی طلسمی دوڑ میں مصروف ہے۔ ترقی یافتہ اور ان ممالک میں جہاں تہذیبی، مذہبی اور سماجی اقدار کا نظام یا تو ہے نہیں یا پھر ہے تو سہی مگر غیر مؤثر ہوکر رہ گیا ہے، ایسے ملکوں اور معاشروں کا آدمی بس کولھو کے بیل کی طرح ایک مخصوص دائرے میں گھومتے ہوئے روز و شب کی گنتی پوری کرتا رہتا ہے۔

مادیت کی یہ چک پھیری اسے اور کچھ دیکھنے، سمجھنے اور سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ مادی اشیا سے ہٹ کر اُس کا دھیان اب کسی طرح کے غیر مادی حقائق کی طرف جاتا ہی نہیں۔ وجودی ضرورتوں سے اوپر اٹھ کر اپنی روح کے تقاضوں کے بارے میں سوچنے کا اسے خیال ہی نہیں آتا۔ اس زندگی کی تگ و دو میں وہ اس درجہ الجھا ہوا ہے کہ اس سے آگے اسے کچھ سجھائی دیتا ہے اور نہ ہی کسی حوالے سے اسے ایسی چیزوں پر غور کرنے کا خیال آتا ہے۔ رنگ بدلتی یہ دنیا اپنے روپ کے جھوٹے درشن میں اس طرح اسے الجھائے ہوئے ہے کہ وہ باقی ہر شے سے بے نیاز حتیٰ کہ اپنے داخلی، قلبی اور روحانی حقائق اور مطالبات سے بھی غافل تنہائی، بیگانگی اور گم شدگی کی گرد میں روپوش ہوتا گیا۔

اس فضا اور اس صورتِ حال کے خلاف مزاحمت کا ایک رویہ کسی حد تک اُن معاشروں میں آج بھی دکھائی دیتا ہے جن کی نہاد میں اخلاقی و تہذیبی اقدار کا کوئی ضابطہ اور مذہبی و سماجی اصولوں کا کوئی نظام قائم اور مؤثر ہے۔ برطانیہ کے معروف اسکالر مارٹن لنگز (The Eleventh Hour) اور ایران کے ممتاز دانش ور سیّد حسین نصرنے (Plight of Modern Man) نے اس عہد کے انسان کی صورتِ حال پر بہت اچھی اور توجہ طلب گفتگو کی ہے۔ 

اسی طرح فرانس کے صوفی دانش ور رینے گینوں نے اپنی کتاب Crisis of Modern World میں اس عہد کے انسانی بحران کو موضوع بنایا ہے۔ ان دانش وروں کے غور و فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ مادی اشیا کے حصول کی نہ ختم ہونے والی خواہش نے اس عہد کے انسان کو صرف اور صرف ایک وجودی اور مادی شے بنا کر رکھ دیا ہے کہ وہ اپنی اصل حقیقت سے غافل ہوگیا ہے۔ کائنات کے اس وسیع و عریض کارخانے میں جہاں اسے گراں قدر حیثیت میں بھیجا گیا تھا، سب کچھ فراموش کرکے اس عہدِ جدید کا انسان محض ایک پرزہ بن گیا ہے۔ اس دنیا کی ساری آبادی کو صارفی معاشرے میں ڈھالنے والی قوتیں اپنی اسی منزل کے حصول کے لیے اس جدید دنیا کے نت نئے کھلونوں اور زندگی کے جھوٹے تصورات کے ذریعے اس کے خلاف تمام تر کوششوں میں مصروف ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا اس عہد کا انسان جس طرف جا رہا ہے اور جو کچھ کر رہا ہے، کیا وہی اس کی ازلی اور ابدی تقدیر ہے؟ معروف مغربی اسکالر گائے ایٹن نے اپنی کتاب Islam and the Destiny of Man میں اس سوال پر خاصی تفصیل اور شرح کے ساتھ بحث کی ہے۔ تقدیر کی تشکیل و تعمیر میں انسان کا اپنا ایک حصہ ضرور ہوتا ہے۔ وہ عضوِ معطل نہیں ہے۔ دنیا میں افعال و اعمال کی آزادی اسے یہ اختیار دیتی ہے کہ نہ صرف اپنی منزل کو سمجھے، بلکہ اپنے راستے کا انتخاب بھی شعور کے ساتھ خود کرے۔

اب رہی بات اُن قوتوں کے تصرف کی جو اُسے کل کا گھوڑا، ایک پرزہ یا روبوٹ دیکھنا چاہتی ہیں، وہ سب قوتیں خواہ کچھ بھی کر لیں، اس وقت تک ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک یہ آدمی اُن کے بنائے ہوئے کھلونوں اور ہتھیاروں کے سامنے سپر انداز نہیں ہوتا۔ یہ قوتیں رنگ بدلتی اس دنیا کو اس کے لیے ہر ممکن طریقے سے پرکشش اور ہوش رُبا بنانا اور اس شخص کو تنہا، و اماندہ اور نہتا دیکھنا چاہتی ہیں۔

تاہم اتنا طے ہے کہ یہ آدمی اس وقت تک ان قوتوں کے قابو میں نہیں آئے گا جب تک اس کے اندر غیر مرئی حقائق اور اپنی روح کے مطالبات کا شعور کسی بھی درجے میں موجود رہے گا۔ یہ شعور اس کے اندر مادیت سے اوپر اٹھنے کی صلاحیت کو زندہ رکھتا ہے۔ اس لیے آج مذہب ہو یا تہذیب اور ادب ہو یا ثقافت، ان میں سے ہر دائرے اور ہر میدان میں کرنے کا کام صرف یہ ہے کہ اس عہد کے انسان کے اندر اس کی غیر مادی حقیقت کا شعور واحساس قائم اور بیدار رکھا جائے۔

رینے گینوں نے عہدِ جدید کی منہ زور اور تباہ کن صورتِ حال اور اُس کے آگے بے دست و پا آدمی کو دیکھ کر کہا تھا کہ یہ عہد ایک طوفان کی طرح آرہا ہے۔ طوفانوں کے آگے بند نہیں باندھے جاتے۔ ان کے گزرنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں ہماری ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ ہم اس بیج کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی کوشش کریں جو بعد میں کام آسکتا ہے۔ 

آج ہمارے علمی، ادبی، مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اداروں اور افراد کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اپنی تہذیب اور اپنی اقدار کے بیج کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ جب یہ طوفان گزر جائے گا تو یہی بیج کارآمد ہوگا اور اس کے ذریعے شعور و احساس کی نئی فصل ایک نئی نسل کی صورت میں اٹھے گی، لہلہائے گی اور آنے والے وقت کی نسلوں کے لیے حیاتِ نو کا پیغام بن جائے گی۔