• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے اپنے ایک دوست کا بیٹا اپنے بیٹوں جیسا ہی پیارا لگتا ہے۔ مجھے وہ اس وقت سے پیارا ہے جب میں اپنے دوست کے گھر جاتا تو یہ ’’بلونگڑا‘‘ سا میری گود میں آ بیٹھتا۔وہ بچپن میں بہت شرارتی تھا، اس کے گھر میں ایک بندر کا مجسمہ تھا، اس نے اس کے ساتھ بیٹھ کر ہوبہو اس جیسا پوز بنا کر تصویر بنائی اور یہ تصویر آج بھی ان کے ڈرائنگ روم کی دیوار پر لگی ہوئی ہے ۔ اس نے بچپن میں ایک ڈرامے میں بھی کام کیااور ایسی زبردست اداکاری کی کہ اس کے ابا نے اس کی نظر اتارنے کے لئے ایک کالے بکرے کی جان لے لی۔ وہ میری آنکھوں کے سامنے بڑا ہوا اور یہ گورا چٹا بلونگڑا اب جوانِ رعنا بن چکا تھا، اسے تعلیم کے حصول کا بہت شوق تھا وہ ایم اے کرنے کے بعد یورپ کی کسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنا چاہتا تھا مگر ان کے پاپا کےپاس اتنے وسائل نہیں تھے۔ مگر اس نے خود جرمنی کی ایک یونیورسٹی کی ویب سائٹ تلاش کی جس میں سکالر شپ آفر کی گئی تھی اس نے ازخود اس سلسلے کے سب ٹیسٹ پاس کرلئے اور جرمنی چلا گیا اور چار سال میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پھر ایک سکالر شپ لندن یونیورسٹی کی بھی تلاش کی اور اس کی بھی ساری منازل طے کرکے وہ لندن چلا گیا ۔اس تمام عرصے میں اس کے والد کو ایک پائی بھی خرچ نہ کرنا پڑی۔

لیکن جب وہ واپس پاکستان آیا تو اس کی باطنی کیفیت بالکل بدل چکی تھی وہ مکمل طور پر HUMANITARIAN بن چکا تھا۔ یورپ جانے سے پہلے وہ بقر عید پر قربانی کے بکرے خود ذبح کرتا تھا، جب واپس آیا تو اس کا حلیہ اور خیالات بھی بدل چکے تھے۔ وہ اب ویجیٹرین بن چکا تھا اور ہاں اس کی شادی اس کے والدین نے اس کی مرضی سے کی تھی اور وہ بھی باہر کی کسی یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی تھی، دونوں اتنے ہم مزاج اور ہم خیال تھے کہ پتہ ہی نہیں چلتا تھاکہ کون کس سے متاثر ہوا ہے، بات درمیان ہی میں رہ گئی، اپنے ہاتھ سے بکرے ذبح کرنے والا یہ بلونگڑا اب گوشت کے قریب بھی نہیں پھٹکتا تھا، کسی دعوت میں جاتا تو میزبان کو اس کے لئے سبزی کی ایک ڈش الگ سے تیار کرنا پڑتی تھی۔ اس ’’بلونگڑے‘‘ کا اب لباس بھی تبدیل ہو چکا تھا، اس نے اپنے سارے سوٹ اور ٹائیاں ایک علیحدہ وارڈ روب میں لٹکا دی تھیں، لباس ہی نہیں اس نے حلیہ بھی تبدیل کرلیا تھا۔ اب کسی یونانی دیومالائی اس حسین و جمیل نوجوان نے شیوکرنا بھی چھوڑ دیا اور روشن چہرے پر گھنی سیاہ داڑھی سجا لی جس سے اس کی شخصیت بہت بارعوب ہوگئی، اب وہ زیادہ وقت لائبریریوں میں گزارتا اور انگریزی میں تحقیقی مقالے اور کتابیں تخلیق کرتا جو امریکہ اور یورپ کے پبلشر شائع کرتے۔انہی دنوں میں، میں اپنے دوست کے گھر گیا وہ کہنے لگا یا راپنے اس ’’بلونگڑے‘‘ کو سمجھائو کہ اب یہ کرتا پاجامے اور واسکٹ کو اپنا مستقل پہناوا بنا چکا ہے،گوشت سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار کر چکا ہے اور اس کی بیوی بھی پوری طرح اس کے رنگ میں رنگی جا چکی ہے یا یہ خود اس کا ہم رنگ ہوگیا ہے۔ میں نے دوست سے پوچھا کبھی تم نے میرے بلونگڑے سے اس حوالے سے کوئی بات کی، کہتا ایک بار کی تھی، پھر دوبارہ نہیں کی کہ اتنے برس یورپ اور امریکہ میں رہنے کے بعد ان کا جواب بس اس ایک جملے میں ہوتا ہے کہ THIS IS MY LIFE اور یہ جواب اتنا غلط بھی نہیں۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اب میاں بیوی کی دلچسپی اندرون لاہور کی قدیم گلیوں، ثقافت اور تاریخ سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ میں نے کہا یہ تو اچھی بات ہے، شکر کرو تمہارابیٹا اور بہو مثبت راہوں پر چل رہے ہیں، ورنہ وہ پرانے ہیپیوں ایسی زندگی بھی گزار سکتے تھے۔

ایک دفعہ میرے اس بلونگڑے نے اپنے گھر پر اپنے والدین اور بھائی بہنوں کی دعوت کی اور اپنے پاپا سے کہا کہ انکل کو میں خود ہی کہہ دیتا ہوں لیکن آپ بھی، ضد بھی کرنا پڑےتو انہیں ساتھ لے کر آئیں، میں تو ویسے ہی اسے ملنے اور دیکھنے کو بیتاب رہتا تھا چنانچہ میں اس کی فیملی سے پہلے ان کی طرف چلا گیا۔ وہ مجھے اس وقت بھی پیارالگتا تھا،جب میں نے پہلی دفعہ اسے بلونگڑے کا نام دیا تھا اور اپنے نئے گیٹ اپ میں بھی میرے لئے ’’بلونگڑا‘‘ ہی تھا۔ اس روز انہوں نے ہم سب گوشت خوروں کے لئے گوشت کی تین چار ڈشز تیار کی تھیں اور اپنے لئے دال روٹی الگ سے تھی۔ کھانے کے دوران میں نے ایک گورا چٹا بہت خوبصورت بلاّ دیکھا اور پھر وہ چھلانگ لگا کر بلونگڑے کی گود میں ایسے ہی بیٹھ گیا جیسے میرا بلونگڑا میری گود میں آ بیٹھتا تھا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے۔ اس نے جواب دیا اس کا نام ہم نے مٹھن رکھا ہے، یہ بلونگڑا تھا جب ہم اسے گھرلے کر آئے، اب بڑا ہوگیا ہے مگر ہمارے لئے وہ اب بھی بلونگڑا ہی ہے۔ یہ سن کر میں اپنی کرسی سے اٹھا اور اپنے بلونگڑے کا بوسہ لیتے ہوئے کہا ’’تم بھی اب مٹھن بن چکے ہو، مگر آج بھی تم میرے بلونگڑے ہی ہو۔ یاد رکھنا بھولنا نہیں۔

تازہ ترین