• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں سڑک کنارے شکرقندی کی ریڑھی دیکھی تو دل مچل اٹھا۔ گاڑی ایک سائیڈ پرلگائی اور ایک پلیٹ شکر قندی کا آرڈر کیا۔ ریڑھی والے نے شکر قندی پلیٹ میں ڈال کر تولنے کی بجائے الگ سے ترازو میں ڈال کر تولی اور ڈسپوزیبل پلیٹ میں ڈال دی۔ میں نے پوچھا پلیٹ میں ڈال کر کیوں نہیں تولی؟ انتہائی متانت سے بولا’صاحب میں شکر قندی کے پیسے لیتا ہوں ڈسپوزیبل پلیٹ کے نہیں‘۔ اس کا جملہ سن کر میں مبہوت رہ گیا۔ ایسی دنیاداری کے زمانے میں اتنا پرخلوص انسان، سبحان اللہ۔ میں نے اس کے کندھے تھپتھپائے اور شکر قندی کھانا شروع کر دی۔ پانچ منٹ بعد پلیٹ خالی ہوگئی تو میں نے پیسے پوچھے۔ اطمینان سے بولا’پانچ سو روپے‘۔میں نے ایک جھرجھری سی لی۔’ایک چھوٹی سی شکر قندی کی پلیٹ پانچ سو کی ہے؟‘۔ اُس نے اثبات میں سرہلایا۔میں نے احتجاج کیا’لیکن میں نے پہلے بھی کئی جگہ سے شکر قندی کھائی ہے، یہ زیادہ سے زیادہ سو روپے کی ملتی ہے‘۔ میری بات سن کر اُس نے گھور کر میری طرف دیکھا’تو پہلے ریٹ پوچھ لینے تھے‘۔ یہ جملہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھیں ہر قسم کے احساس سے عاری نظر آئیں۔ میں نے جلدی سے پانچ سو کا نوٹ پیش کیا اور نکل گیا۔

سڑک کنارے ایک سبز رنگ کا مقفل ڈبا پڑا ہوا تھا۔ساتھ ایک اسپیکر لگا ہوا تھا جس پر مسلسل ٹیپ چل رہی تھی کہ ’صدقہ ہزار بلائوں کو ٹالتا ہے، صدقہ رزق میں اضافہ کرتاہے، صدقہ بیماری سے نجات دلاتاہے‘۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا۔ پتا نہیں کس نے یہ ڈبا رکھا تھا اور کس نے ڈائریکٹ لائن سے تار لے کر اسپیکر لگایا ہوا تھا۔پاس ہی ایک پان سگریٹ والے کی دکان تھی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ ڈبا اورا سپیکر کس کا ہے ؟ اُس نے کندھے اچکائے ’پتا نہیں ‘۔ میں نے اِردگرد کی تین چار دکانوں سے بھی پوچھا لیکن کسی کو بھی اس بارے کچھ پتا نہیں تھا۔اچانک مجھے ایک طریقہ سوجھا۔ میں نے جیب سے ایک چابی نکالی اور ڈبے کے پاس جاکر بظاہر تالا کھولنے لگا۔میرے اتنا کرنے کی دیر تھی کہ ایک ہڑبونگ سی مچ گئی۔ تین چار لنگڑے فقیر بہترین طریقے سے بھاگتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔ پان والا بھی چھلانگ لگا کر اپنے کائونٹر سے باہر نکل آیا۔سب کا غراتے ہوئے ایک ہی سوال تھا کہ میں کون ہوں اور یہ کیا کررہا ہوں؟ میں نے بتایا کہ یہ ڈبا میں نے ہی رکھا تھا اور اب پیسے نکالنے آیا ہوں۔یہ سنتے ہی اُن کے چہرے پردرشتی کے آثار نمایاں ہوگئے۔ ایک اندھا فقیر میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے غرایا’ڈبے کو ہاتھ بھی لگایا تو ہاتھ توڑ دوں گا‘۔ میں نے بوکھلا کر کہا’تم تو اندھے ہوناں‘۔ اُس نے دانت پیسے ’اتنا بھی اندھا نہیں‘۔اسی اثناء میں پان سگریٹ والے نے میرے ہاتھ سے چابی چھینی اور چلایا’چلے جائوکسی کے کاروبار میںٹانگ مت اڑائو‘۔ میں نے سر ہلایا اور ’کاروبار‘ میں ٹانگ اڑانے کی بجائے اپنی راہ لی۔

اخبار میں ایک اشتہار دیکھا جس میںلکھا تھا کہ اپنے وفات شدگان کی نمازیں ہم سے پڑھوائیں۔ بات سمجھ میں نہ آئی تو اشتہار میں دیئے گئے نمبر پر فون کیااور تفصیل پوچھی۔دوسری طرف کوئی حاجی نیک محمد صاحب تھے۔ بتانے لگے کہ وہ خلق خدا کی آخرت کے لیے نہایت فکر مند رہتے ہیں اور جو لوگ اپنی زندگی میں نماز کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں ان کی بخشش کے لیے ان کے حصے کی نمازیں ادا کرتے ہیں۔میں نے ان کے جذبے کو سراہا اور نہایت عقیدت سے پوچھا’آپ کو کیسے پتا چلتاہے کہ کسی مرحوم کی کتنی نمازیں قضا ہوئی ہیں‘۔ انہوںنے محبت اور شفقت سے فرمایا’اس بارے میں مرحوم کے لواحقین زیادہ علم رکھتے ہیں لہذا انہی کے بیان کی روشنی میں مرحوم کی پانچ سال یا دس سال کی نمازیں میں ادا کر دیتا ہوں۔‘ ماشاء اللہ، بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ مجھے یاد آیا کہ میرے ایک بڑے پیارے اور مرحوم دوست بھی نماز سے غفلت برتتے تھے تو کیوں نہ ان کی بخشش کے لیے حاجی نیک محمد صاحب سے درخواست کی جائے۔ میں نے اپنا ارادہ ظاہر کیا تو حاجی صاحب بہت خوش ہوئے۔فرمایا’بہتر یہی ہے کہ آپ ان کی دس سالہ نمازیں پڑھوا لیں‘۔ میں نے رضامندی کا اظہار کیا اور پوچھا کہ یہ سلسلہ آپ کب شروع کریں گے؟ انہوں نے پہلے میرے جذبے کی تعریف کی، پھر فرمایا ’فی نماز پانچ سو روپے ہدیہ ہوگا‘۔ میں چونک گیا۔پہلے تو حساب کی سمجھ نہ آئی، پھر پانچ نمازیں روزانہ کے حساب سے دس سال کی نمازوں کا حساب لگایا تو میرے ہوش اڑ گئے۔دوست کی بخشش کے لیے گاڑی کی فروخت لازمی ہوجانی تھی ۔ اچانک میرے ذہن میں ایک دلچسپ سوال آیا، میں نے پوچھا’حاجی صاحب ٹھیک ہے لیکن میری ایک خواہش ہے‘۔ دوسری طرف سے مسرت میں ڈوبی ہوئی آواز آئی ’جی جی فرمائیے‘۔ میں نے گلا کھنکھارا’میں چاہتا ہوں کہ یہ نمازیں آپ میرے سامنے ادا کریں ‘۔ میری بات سن کردوسری طرف پونے چھ سیکنڈ خاموشی رہی۔ پھر دانت پیسنے کی آواز آئی ، حاجی صاحب بمشکل خود پر قابو پاتے ہوئے بولے’کیا آپ کو مجھ پر یقین نہیں؟‘۔ میں نے جلدی سے کہا’ایسی بات نہیں میں صرف اپنے دل کی تسلی چاہتاہوں‘۔ دوسری طرف سے حاجی صاحب کی آواز آئی’ٹھیک ہے لیکن میں نے چونکہ دوسرے لوگوں کے بھی آرڈرز لیے ہوئے ہیں اس لیے میں یہ نمازیں کسی تنہا مقام پر ادا کرتا ہوںآپ اگر بالا کوٹ کے پہاڑ پر تشریف لاسکتے ہیں تو آجائیں‘۔ میں نے جلدی سے کہا’یہ تو بہت اچھی بات ہے کیونکہ میں بالا کوٹ میںہی رہتاہوں، کون سے پہاڑ پر آنا ہے؟‘۔ یہ سنتے ہی حاجی صاحب کی آواز یکدم ٹوں ٹوں میں تبدیل ہوگئی اور میں سوچتا رہ گیا کہ اشتہار پڑھنے کے بعد کتنے لوگوں نے حاجی صاحب سے رابطہ کیا ہوگا اور وہ سب کے مرحومین کی نمازیں آخر کس طرح ادا کرتے ہونگے۔ یقینا ایسے نیک لوگ مشکلوں میں ہی راحت پاتے ہیں۔

تازہ ترین