رات سرد تھی بلکہ بہت زیادہ سرد لیکن مطلع صاف تھا اس قدر صاف کہ چاند اور ستارے ایسے دکھائی دے رہے تھے جیسے بالکل قریب ہوں میں ستاروں کو غور سے دیکھ رہا تھا لگ رہا تھا جیسے ان ستاروں کے سینوں میں کوئی الاؤ سا دہک رہا ہے اور الاؤ بھی ایسا کہ جیسے یہ ستارے اس الاؤ کی حدت میں شدت کی وجہ سے پگھل کر زمین پر ہی آگریں گے ۔میں پھر کھلے آسمان تلے جا کر ستاروں کو بغور دیکھتا ہوں تو وہ مجھے جلتے دہکتے ہوئے ہی محسوس ہوتے ہیں کہ ان ستاروں سے روشن کتنے معصوم بچے تھے جو اسرائیلیوں کی وحشتوں کی نذر ہوگئے وہ بچے کہ جن کے چہروں پر شہادت کے بعد بھی سرخئی رخسار دیکھی جاسکتی تھی جنکے رخساروں پر جیسے غازہ یا گلگونہ لگایا ہوا ہے اور ہونٹوں پر بچپنے کی معصومیت تازہ تھی جنہیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ گلیوں بازاروں کمروں میں پڑی ہوئی ان بچوں کی نعشیں ہر طرح کے وسائل سے مالامال امت مسلمہ کی بے حسی اور بے بسی کا نوحہ پڑھ رہی تھیں کہ یہودیوں سے تو کوئی توقع ہی عبث ہے انکی تو سرشت میں ہلاکت انگیزیوں کے طوفان مچلتے رہتے ہیں انکے تو منہ کو مسلمانوں کا خون لگ چکا ہے اور جب تک وہ مسلمانوں کا خون بہا نہیں لیتے انکی طبعیت قرار نہیں پاتی سال 2023ء کا یہ سب سے بڑا سانحہ ہے بلکہ صدی کا بڑا سانحہ جس میں دنیا کے طاقتور ممالک نے مل کر جدید ترین ہتھیاروں سے نہتے بے گناہ فلسطینیوں پر گولہ و بارود کی بارش کردی کوئی تعلیمی ادارہ۔ کوئی علاج گاہ حتی کہ معالج تک نہ چھوڑے گئے کوئی پناہ گزین یا ہجرت کرنیوالا نہ بخشا گیا نہ دنیا کی کسی قرارداد کو خاطر میں لایا گیا نہ ہی دنیا کا کوئی احتجاج ہی کام آیا اسرائیلی ٹینک مسلسل آگ اگلتے رہے جس میں جل کر چھوٹے بڑے خواتین سب خاکستر ہوگئے صحافی بھی اسرائیلیوں کی منتقم مزاجی کی نذر ہو کر رہ گئے کوئی مسجد۔چرچ کوئی معبد اسرائیلیوں سے محفوظ نہ رہا گویا یہودیوں کو معبدوں کے تقدس تک کا پاس نہیں یہ طاقت کے پجاری ہیں طاقت کو استعمال کرتے ہیں اور طاقت سے ہی یہ خائف ہوتے ہیں کاش عرب لیگ کے اجلاس میں مسلم حکمرانوں نے اسرائیلی جارحیت پر اپنے اپنے پر امن جوہری پروگرام کو شروع کرنے کا اعلان کیا ہوتا۔ میری نظر میں یہی ایک مستقل حل تھا اور ہے جسے عرب ممالک نے استعمال نہیں کیا نہ کررہے ہیں…دسمبر کے ماہ میں ہی پشاور میں آرمی پبلک اسکول دہشتگردوں کی منفی سوچ کا شکار ہوا جس میں سو سے زائد کومل بچے اور معصوم اساتذہ پر گولیاں برسادی گئی تھیں 16 دسمبر2014 ء کو دہشت گردوں نے سیاہ تاریخ رقم کی جب آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں کی نعشیں دہشت گردوں کی سفاکیت کی دردناک تصویریں تھیں جنہیں دیکھ کر ہر کسی کی آنکھیں گھائل ہوگئیں اس سانحہ نے دہشت گردوں کے عزائم کو آشکار کردیا تھا کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کےلئے کس حد تک جا سکتے ہیں کہ بچے اور اساتذہ بھی انکے لئے کچھ اہمیت نہیں رکھتے انہیں صرف خون بہانا مقصود ہے اور خونی صفات کے لوگ جہاں بھی ہوں قابل نفرت اور قابل گردن زنی ہیں چاہے وہ دہشت گرد پاکستان میں ہوں یا فلسطین میں…یہ دسمبر کا ہی مہینہ تھا جب پاکستان دو لخت ہوکررہ گیا سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور اور سانحہ مشرقی پاکستان میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول بھی سولہ دسمبر کو پیش آیا اور سانحہ مشرقی پاکستان بھی جسکے پیچھے ایک منظم سازش اور کچھ عاقبت نا اندیشوں کا تکبر اور لاپروائیاں تھیں پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان مخالف سرگرمیوں کا عمل شروع ہو گیا تھا لیکن اللہ کریم کے فضل سے جب پاکستان بھارتی امیدوں کے برعکس کامیابی سے ہمکنار ہونے لگا تو بھارت نے پاکستان کیخلاف ہر سطح پر ہر طرح کا محاذ کھول دیا کبھی آبی جارحیت سے کام لیا گیا تو کبھی گولہ بارود کی بارش کی گئی کبھی سازشوں کی گرد اڑائی گئی، 1971ء میں بھی بھارت نے پاکستان کی سیاسی کشمکش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسا وار کیا پاکستان پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ پاکستان دو لخت ہو گیا اور آج وہی بنگلہ دیش پاکستان سے معاشی سیاسی بلکہ ہر حوالے سے اپنی بنیادوں کو مستحکم کرچکا ہے اور پاکستان جو کل بھی سیاسی ناتوانی کا شکار تھا سو آج بھی ہے لیکن ہمارے شعور پر جو بات چوٹ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم آج بھی پاکستان مخالف قوتوں کیلئے راہیں ہموار کررہے ہیں سانحہ 9مئی اس کی ایک تلملاتی ہوئی مثال ہے کہ جب پاکستان میں دشمن کی زبان بولی گئی یوں سال 2023ء پاکستان میں سانحہ 9مئی سے نبرد آزما اور سانحہ پشاور۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی کڑوی یادوں سے ہو کر گزرا ہے جبکہ عالمی سطح پر 2023 ء اسلام اور صہیونی قوتوں کے مابین مسلمانوں کے قتل عام میں رخصت ہورہا ہے فلسطین میں جو کربلائی سلسلہ شروع ہوا تھا وہ ہنوز جاری ہے اور ہماری دانش اس بات کا ادراک کرتی ہے کہ یہ سلسلہ (خدانخواستہ) کبھی رکنے والا نہیں کہ جب تک عرب دنیا اپنا پر امن جوہری پروگرام کا آغاز نہ کر لے گی ۔