• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک اور اُس کی اہمیت

محمد عمر ظفر شاہ

(گزشتہ سے پیوستہ)

والدین کے ساتھ حسن سلوک میں ادب انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ والدین کے سامنے اونچی آواز میں بات نہ کی جائے یعنی والدین کی موجودگی میں ہر کسی سے بات کرتے ہوئے آواز کو پست رکھے، بڑھا پے میں والدین سے کیسے گفتگوکی جائے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فر ما یا : یعنی ان سے خوب ادب سے با ت کی جائے، لب ولہجہ میں نرمی اور الفاظ میں تو قیر و تکریم کا خیال رکھا جائے۔

والدین کے ساتھ حسن سلوک میں سے ایک یہ بھی ہے کہ والدین کے آگے نہ چلے، حضرت عا ئشہؓ سے مروی ہے، وہ فر ما تی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی بھی تھا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے جواب میں کہا کہ یہ میرا باپ ہے، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ان کے آگے مت چلنا ، مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا ، ان کا نام لے کر مت پکارنا، ان کو گا لی مت دینا۔

اولاد پر لازم ہے کہ والدین کے سامنے نظروں کو پست رکھے ،انہیں گھور کہ نہ دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ان کے سامنے شفقت کے ساتھ انکساری سے جھکتے رہنا۔ حضرت عروہ رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ اللہ نے قرآن میں والدین کے سامنے جھکے رہنے کا حکم دیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انھوں نے فر ما یا کہ اگر وہ کوئی با ت تیری نا گواری کی کہیں تو ترچھی نگا ہ سے بھی انہیں مت دیکھو کہ آدمی کی نا گواری اول اس کی آنکھ سے پہچانی جا تی ہے۔

والدین کو برا بھلا نہ کہیں انہیں گالی مت دیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا :بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے، تو صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ آدمی اپنے والدین کو کیسے گالی دے سکتا ہے؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا: آدمی دوسرے کے والدین کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کےوالدین کو گالی دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، وہیں ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے، چناں چہ ارشاد خداوندی ہے: اے میرے پروردگار! تو میرے والدین پر رحم فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں (رحمت و شفقت کے ساتھ) میری پرورش کی ہے۔ ہر نماز کے بعدوالدین کے لیے دعا کرنے کا معمول بنالیں۔ والدین یا ان میں کوئی ایک فوت ہوجائے اور زندگی میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک میں کوتاہی ہوئی ہو تو اس کے تدارک کا طریقہ بھی حضور اقدس ﷺ نے سکھایا۔ 

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (وہ منقطع نہیں ہوتے): صدقہ جاریہ یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نیک بیٹا جو اس کے لیے دعا کرے۔ (سنن ترمذی)حضرت ابو ہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل جنت میں اپنے نیک صالح بندے کا درجہ بلند کرتا ہے تو وہ پوچھتا ہے میرے پروردگار! مجھے یہ درجہ کیسے حاصل ہوا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تیرے لئے تیرے بیٹے کے استغفار کی وجہ سے۔ (مسند امام احمد بن حنبل)

حضرت ابواسید ؓ کہتے ہیں کہ ہم حضور اقدس ﷺکی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور عرض کیا کہ ماں باپ کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز ایسی ہے، جس کے ذریعے ان سے حسن سلوک کرسکوں؟ توآپ ﷺنے فر ما یا: ہاں! ان کے لیے رحمت کی دعا کرنا، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نا فذ کرنا اور اس صلہ رحمی کو نبھا نا جو صرف ماں باپ کے تعلق کی وجہ سے ہو، ان کے دوستوں کا اکرام کرنا۔(سنن الکبریٰ للبيھقی)

آخر میں گزارش ہے کہ جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک باحیات ہوں تو انہیں اللہ کی بہت بڑی نعمت سمجھ کر ان کی فرماں برداری کریں، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کریں، جتنا ہوسکے ان کی خدمت کریں اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی بھرپور کوشش کریں، خصوصی طور پر ان کے لئے وقت نکالیں، ان کے پاس بیٹھیں اور ان سے باتیں کریں۔ 

جن کے والدین دونوں یا ان میں سے کوئی ایک اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہوں توان کے ساتھ اب حسن سلوک یہ ہے کہ ان کے لئے دعا اور استغفار کریں ،یقیناً وہ ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں، جہاں انہیں ہماری طرف سے بھیجے جانے والے تحفہ کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ جن کے والدین حیات ہیں ان کی اولاد کو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائےاور جن کے والدین اس دنیا سے پردہ فرماگئے ہیں، ان کی اولاد کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔ (آمین)