• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک اور اُس کی اہمیت

محمد عمر ظفر شاہ

انسان کے سب سے بڑے محسن اس دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے بعد اس کے والدین ہیں، اس دنیا میں اس کے والدین ہی اس کے آنے کا سبب بنے، جب وہ اس دنیا میں آگیا تو اس کی راحت کا سامان پیدا کرنے میں اس کے والدین نے کوئی کسر نہ چھوڑی ،خود تو مشقت کی چکیوں میں پستے رہے مگر اپنی اس ننھی سی جان کوشہنشاہوں کا سا سکون مہیا کیا ،اس کے لئے اس کی ماں نے حالت حمل کی شدت تکلیف کو برداشت کیا،وضع حمل کی پریشانیوں کو جھیلا،والدین اس کے لئے راتوں کو جاگے، اس کا باپ اس کے لئے گرمی کی سخت دھوپ میں کماتا رہا ،تاکہ اس کی فرمائشوں کو پورا کرسکے، اس کے کہنے سے پہلے اس کی ضرورتوں کو پورا کرسکے کہ اسے کوئی تنگی نہ ہو ،خود گرمی برداشت کرکے اس کے لئے راحت کا سامان پیدا کیا، اس کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کیا، اس کی پرورش کی محبت میں اس کے لئے کمایا اور اس پہ خرچ کیا ۔ایک عقلمند انسان اپنے محسن کے حق کو پہچانتا ہے اور اس کے مکافات کی کوشش کرتا ہے،انسان ساری زندگی بھی والدین کی اطاعت و فرماں برداری میں گزار دے اور والدین کو کوئی تکلیف نہ ہونے دے تو تب بھی یہ ان کا حق ادا نہیں کرسکتا۔

ایک دفعہ ایک آدمی کو حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ وہ اپنی ماں کو کندھوں پہ اٹھائے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ اشعار پڑھ رہا تھا:ترجمہ: میں اپنی والدہ کے بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہوں کہ (پہلے) وہ میرا بوجھ اٹھاتی تھی، مجھے دودھ پلاتی تھی اور لوریاں سناتی تھی،تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: ترجمہ: اے کاش میں بھی اپنی والدہ کو پاتاتو اسی طرح برتاؤ کرتا جیسے اس نے کیا ہے تو یہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے بہترتھا۔

ایک آدمی نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے پوچھا کہ میں نے اپنی والدہ کو اپنی پُشت پر خراسان سےسوار کیا، یہاں تک کہ میں نے انہیں حج کروادیا تو کیا میں نے اپنی والدہ کا بدلہ ادا کردیا ؟حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا:ترجمہ: تم نے جننے کی تکلیفوں میں سے ایک کا بھی بدلہ ادا نہیں کیا۔

جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکرادا کرے تو ساتھ ساتھ والدین کا بھی شکر ادا کرے ،کیونکہ جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے ،اسی طرح اس کے والدین اس کے دنیا میں آنے کا ظاہری سبب بنے ہیں اور جس طرح انہوں نے اس کے بچپن میں کہ جس وقت وہ ہر طرح کی محبتوں کا محتاج تھا ،اسے پالا تو ایسے اس کی طرف والدین کا شکر بجا لانا واجب ہو گیا اور ان کو معمولی سے معمولی تکلیف دینا حرام قرار دے دیا گیا۔

حضرت سفيان بن عیینہؒ نےفرمایا:جس نے پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے پڑھی ،اس نے حق تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور جس نے پانچ وقت کی نماز کے بعد اپنے والدین کے لئے دعا کی، ا س نے والدین کا شکر ادا کیا۔

اس سے بڑی فضیلت کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد متصل والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر فرمایا۔ جہاں اپنی عبادت کا ذکر فرمایا ساتھ ہی یہ فرمادیا کہ والدین کے ساتھ احسان والا معاملہ کیا کرو۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔(سورۃالنساء) ترجمہ: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔(سورۃ الانعام)ترجمہ: تم میرا شکرادا کرو اور اپنے ماں باپ کااور میرے پاس ہی ( تمہیں ) لوٹ کر آناہے۔( سورۂ لقمان )ترجمہ: اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔(سورۂ بنی اسرائیل:)ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پکا عہد لیاتھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور والدین سے اچھا سلوک کروگے( سورۃالبقرہ)

احادیث مبارکہ میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بہت ترغیب آئی ہے اور بد سلوکی کرنے والے کےلیے سخت وعید آئی ہے۔حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’(اس شخص کی) ناک خاک آلود ہو ، (وہ ناکام اور ذلیل ہو گیا) پھر (اس کی) ناک خاک آلود ہو ۔ پھر (اس کی) ناک خاک آلود ہو ۔‘‘ پوچھا گیا: اللہ کے رسولﷺ! وہ کون شخص ہے؟آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے اپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے میں پایا تو (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا۔(صحیح مسلم )

حضرت ابوہریرہؓ بیا ن کرتے ہیں کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ ﷺ نےفرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا ،اس کے بعد کون؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پوچھا ،اس کے بعد کون ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تمہارا باپ ہے۔(سنن الکبریٰ للبيھقی )

حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی عمر لمبی ہو جائے اور اس پر رزق کشادہ کردیا جائے تو وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔‘‘ ( مسند امام احمد بن حنبل)

حضرت ابو بکرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ تمام گناہوں میں بڑا گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اور ماں باپ کو ستانا (ان کی نافرمانی کرنا) اور جھوٹی گواہی دینا، جھوٹی گواہی دینا، تین بار یہی فرمایا یا یوں فرمایا اور جھوٹ بولنا برابر (بار بار )آپ ﷺیہی فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے آرزو کی کہ کاش آپ خاموش ہو جاتے۔(صحیح بخاری)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے: ماں باپ کا نافرمان، ہمیشہ شراب پینے والا اور دے کر احسان جتلانے والا۔(سنن الکبریٰ للبيھقی )

حضرت ابن عباس ؓ فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فر ما یا :جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں اللہ کا فرماں بر دار رہا تو اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک زندہ ہو اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے ۔ جس نے اپنے والدین کے حقوق کی ادائیگی میں اللہ کی نا فر ما نی کی، اس کے بتائے ہوئے احکا م کے مطابق حسنِ سلوک نہ کیا تو اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھلے رہتے ہیں اوراگر والدین میں ایک زندہ ہواوراس کے ساتھ بد سلوکی کر ے تو جہنم کا ایک دروازہ کھلا رہتا ہے۔کسی نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبیﷺ! اگر چہ ماں باپ نے اس پر ظلم کیا ہو ؟تو آپﷺ نے تین دفعہ فر ما یا: اگرچہ والدین نے ظلم کیا ہو ۔(سنن الکبریٰ للبيھقی)

والدین کے ساتھ حسن سلوک کی اس قدر اہمیت کے بعد سوال ہوتا ہے کہ والدین کے ساتھ ان کی حیات میں حسن سلوک کیسے کریں؟ اس کا جواب بھی شریعت نے دیا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا سب سے بہتر طریقہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے بندوں کو سکھا دیا کہ ان کے سامنے اُف تک نہ کہو اور ان کے سامنے ہر وقت بچھے رہو یعنی ان کا ہر حکم مانو، بشرطیکہ وہ شریعت کے خلاف نہ ہو ،حضرت تھا نوی رحمہ اللہ نے بیا ن القرآن میں ”اُف “ کا ترجمہ ”ہوں “ سے کیا ہے کہ اگر ان کی کوئی بات نا گوار گزرے تو ان کو جواب میں ”ہوں “بھی مت کہنا‘‘۔ جسے کہتے ہیں ناک بھویں چڑھانا یعنی جس سے والدین کو لگے کہ اس کو ہماری بات ناگوار لگی ہے، اللہ رب العزت نے بڑھا پے کی حالت کو خاص طور سے اس لیے ذکر فر ما یا کہ والدین کی جوا نی میں تو اولاد کو نہ” ہوں“ کہنے کی ہمت ہوتی اور نہ ہی جھڑکنے کی، جوانی میں بدتمیزی اور گستاخی کا اندیشہ کم ہو تا ہے،البتہ بڑھاپے میں والدین جب ضعیف ہوجاتے ہیں اولاد کے محتاج ہوتے ہیں تو اس وقت اس کا زیا دہ اندیشہ رہتا ہے۔

پھر بڑھا پے میں عا م طور سے ضعف کی وجہ سے مزاج میں چڑچڑا پن اور جھنجھلاہٹ پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ معمولی باتوں پر بھی والدین اولاد پر غصہ کر تے ہیں، تو اب یہ اولاد کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ اسے برداشت کر کے حسنِ سلوک کا مظاہرہ کر تے ہیں، یا نا ک بھویں چڑھا کر بات کا جواب دیتے ہیں، اس موقع کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ جواب دینا اور جھڑک کر با ت کر نا تو دور کی با ت ہے، انہیں” اُف“ بھی مت کہنا اور ان کی بات پر معمولی سی ناگواری کا اظہا ر بھی مت کر نا۔

والدین کے ساتھ حسن سلوک میں سے ایک یہ بھی ہے کہ والدین جس چیز سے روکیں اس سے رک جائیں ،اگرچہ اس کے برخلاف میں خیر نظر آرہی ہو مگر اس کی فرماں برداری کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کام میں خیر پیدا فرمادیں گے۔

والدین کے ساتھ حسن سلوک میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان پر خوب خرچ کیا جائے، جیسے انہوں نے بچپن میں اس کی ضرورتوں کو بن مانگے پورا کیا تو اب اسے چاہیے کہ ان کا خوب خیال رکھے، اگرچہ وہ شفقت کی وجہ سے انکار بھی کریں جس چیز کو والدین پسند کریں تو وہ ان کی خدمت میں پیش کر نے میں کنجوسی مت کی جائے۔ ( …جاری ہے …)

اقراء سے مزید