آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال: مسلمانوں کا دارالکفر میں رہنا کیسا ہے ؟ نیز اس سے متعلق مفصل راہ نمائی درکار ہے۔
جواب: غیرمسلم ممالک میں رہائش اور وہاں کی شہریت اختیار کرنے کا مدار زمانہ و حالات اور رہائش رکھنے والے کی اغراض و مقاصد پر ہے، ان کے مختلف ہونے سے حکم مختلف ہوجاتا ہے۔ جس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ اپنے ملک کے اَبتر حالات اور ظلم و ستم میں اگر کسی شخص کی جان و مال کی حفاظت مشکل ہوجائے اور ان مشکلات کی بناء پر وہ دارالکفر میں رہائش اختیار کرتا ہے اور وہاں پر بذاتِ خود اپنے دین پر کاربند رہ سکتا ہے اور وہاں کے منکرات و فواحش سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے تو اس کے لیے وہاں رہائش اختیار کرنے کی اجازت ہے، جیسا کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اپنے وطن میں مذہب کی بنیاد پر انتقامی کارروائیوں اور حالات سے تنگ آکر جان کے تحفظ کے لیے اپنے حق میں نرم گوشہ رکھنے والے غیر مسلم ملک (حبشہ)میں پناہ لی تھی۔
2۔ اسلامی ممالک میں تلاشِ بسیار کے باوجود معاشی مسائل کا حل نہ ہوسکے اور غیر مسلم ملک میں جائز ملازمت اختیار کرنے کی غرض سے وہاں جائے تو یہ بھی جائز ہے، بشرطیکہ وہاں دین پر کاربند رہے۔
3۔ کفار کو تبلیغِ دین اور اہلِ اسلام کی اصلاح کے لیے جانا نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ محمود ومستحسن بھی ہے۔ متعدد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسی غرض سے غیر مسلم ملک کی سکونت اختیار کی اور وہیں انتقال ہوا۔
4۔ دارالکفربے حیائی کے طوفان میں گھرا ہوا ہو، اور کوئی شخص کسی نیک یا دینی مقصد کے لیے نہیں، بلکہ معیارِ زندگی بلند کرنے اور خوش حالی و عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے وہاں جاتا ہے، یہ ترکِ وطن کراہت سے خالی نہیں، بلکہ خود کو منکرات و فواحش کے طوفان میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ بے حیائی اور فحاشی اور دیگر منکرات کی موجودگی میں مسلمان کافروں کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور دین سے دور نکل جاتاہے۔
اسی بنا ءپر حضورِ اکرم ﷺنے کفار کے درمیان اقامت(نیشنلٹی) اختیار کرنے کو کفار کی مماثلت قرار دیا، جیسا کہ ابوداؤد میں ہے:’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو مشرک سے ملا اور اس کے ساتھ سکونت اختیار کی وہ اسی کی طرح ہے۔ ‘‘( سنن أبو داؤد، کتاب الجھاد، آخر کتاب الجھاد باب فی الاقامۃ بأرض المشرک، ۲؍۳۸۵۔ط: میر محمد کتب خانہ) حدیثِ مذکور میں اجتماع سے مراد اُن کے ملک وشہر میں ایک ساتھ رہناہے، اسی بناء پر فقہاء نے صرف ملازمت کے لیے دارالحرب جانے کو ناجائز لکھا ہے۔
5۔ مسلمانوں پر بڑائی کے اظہار کے لیے دارالکفر کو دارا لا سلام پر ترجیح دینا، گویا کفار کے طرزِ زندگی میں ان جیسا بننے کے لیے ایسا کرنا ہے، جو کہ شرعاً حرام ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:’’من تشبّه بقوم فهُو منهم‘‘. ( مشکاۃ المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثانی، ۲/۳۷۵، ط: قدیمی کراچی)
6۔ رہا علاج کے لیے جانا، ظاہر ہے کہ یہ اہم ضرورت ہے، اگر اپنے وطن میں ناممکن ہو تو بہرصورت جانا جائز ہوگا۔
7۔ جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے، یہ بڑا سنجیدہ اور سنگین مسئلہ ہے، ظاہر ہے اس کے لیے رہائش اختیار کرنا ضروری ہے، جن صورتوں میں رہائش اختیار کرنا مکروہ یا حرام ہے ان صورتوں میں تعلیم کے لیے جانا اور وہاں رہنا بھی مکروہ یا حرام ہوگا، اور جن صورتوں میں رہائش جائز ہے،ان صورتوں میں تعلیمی سفر بھی جائز ہوگا۔
تاہم اس حوالے سے خصوصی توجہ کا اہتمام ضروری ہے،اگر دینی، دنیوی اور تعلیمی ضروریات اپنے ملک میں پوری ہوسکتی ہوں تو بلا شبہ، اس گندے ماحول سے دور رہا جائے۔ (فتاویٰ بینات،جلد سوم، عنوان: مغربی ممالک کی شہریت لینے کا حکم، جلد:3،ص:372تا378، ط:مکتبہ بینات)