• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کےخلاف ہے، چیف جسٹس

سیاستدانوں کی 62 ون ایف کے تحت نااہلی پر الیکشن ایکٹ چلے گا یا سپریم کورٹ کا فیصلہ؟

سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 62 ون ایف کےتحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہوگئی جس کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے سوال اٹھایا کہ کیا 5 جینٹلمین کی دانش 326 پارلیمنٹیرینز کی قانون سازی ختم کر سکتی ہے؟ انہوں نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کےخلاف ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

بینچ میں جسٹس منصور علی، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

دورانِ سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آ گئے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ میں اپنی گزارشات 30 منٹ میں مکمل کرلوں گا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے سوال کیاکہ عزیر بھنڈاری کہاں ہیں؟

اس موقع پر عزیر بھنڈاری ایڈووکیٹ روسٹرم پر آ گئے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ہم نے 3 عدالتی معاونین مقرر کیے تھے، جن میں ریما عمر، عزیر بھنڈاری اور فیصل صدیقی شامل ہیں، ریما عمر نے اپنا تحریری جواب بھیجوایا ہے۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے عدالت پر سوالات اٹھا دیے

اس موقع پر درخواست گزار فیاض احمد غوری اور سجادالحسن کے وکیل خرم رضا نے دلائل دیے۔

گزشتہ سماعت پر وکیل خرم رضا نے تاحیات نااہلی کے حق میں اپنی رائے دی تھی، آج انہوں نے عدالتی دائرہ اختیار پر سوالات اٹھا دیے۔

وکیل خرم رضا نے اپنے دلائل میں سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ یہ کیس کس دائرہ اختیار پر سن رہی ہے؟ کیا آرٹیکل 187 کے تحت اپیلیں ایک ساتھ سماعت کے لیے مقرر کی گئیں۔

چیف جسٹس نے وکیل خرم رضا کو ہدایت کی کہ آپ اپنی درخواست تک محدود رہیں۔

وکیل خرم رضا نے سوال کیا کہ عدالت مقدمے کی کارروائی 184/3 میں چلا رہی ہے یا 187 کے تحت؟ آرٹیکل 62 میں کورٹ آف لاء کی تعریف نہیں بتائی گئی۔

اس موقع پر عدالتی معاونین کے جواب کی نقول فریقین کو فراہم کر دی گئیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئینی عدالت اور سول کورٹ میں فرق کو نظر انداز نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ آئینی عدالتیں ہیں جہاں آئینی درخواستیں دائر ہوتی ہیں، الیکشن کمیشن قانون کے تحت اختیارات استعمال کرتا ہے، اگر الیکشن کمیشن تاحیات نااہل کر سکتا ہے تو اختیار سپریم کورٹ کے پاس بھی ہو گا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ ایک بار کوالیفائی نہ کرنے والے کو اگلے انتخابات میں کیسے روکا جا سکتا ہے؟ آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کہاں ہے؟ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی تاحیات مدت سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں دی گئی، انتخابات میں حصہ لینے کے لیے شرائط دی گئی ہیں، اگر امیدوار کی کوالیفکیشن گریجویشن تھی اور وہ الیکشن ایکٹ میں ختم ہو گئی تو تاحیات نااہل کیسے کر دیا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کاغذاتِ نامزدگی میں غلط بیانی پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ امین نہیں، یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ آپ ساری زندگی کے لیے انتخابات نہیں لڑ سکتے۔

وکیل خرم رضا نے عوامی نمائندگی ایکٹ کا حوالہ دیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنی ہی معروضات کی نفی کرنے والی بات کر رہے ہیں، جب 62 ون ایف کے تحت ٹریبونل نااہل نہیں کرتا تو سپریم کورٹ کیسے کر سکتی ہے؟ کیا سپریم کورٹ الیکشن کے معاملے میں ایپلٹ فورم کے طور پر کام نہیں کرتی؟ اضافی اختیار تاحیات نااہلی والا، یہ کہاں لکھا ہے؟

وکیل خرم رضا نے کہا کہ جن کیسز میں شواہد ریکارڈ ہوئے ہوں وہاں سپریم کورٹ ڈیکلیئریشن دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل خرم رضا سے سوال کیا کہ پھر تو آپ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کی حمایت نہیں کر رہے؟

وکیل خرم رضا نے جواب دیا کہ میں ایک حد تک ہی سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کی حمایت کر رہا ہوں۔

’’عجیب نہیں لگتا کہ کرمنل دوبارہ الیکشن لڑ سکتا ہے، سول نوعیت کی غلطی والا نہیں؟‘‘

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ عجیب نہیں لگتا کہ کرمنل دوبارہ الیکشن لڑ سکتا ہے، سول نوعیت کی غلطی والا نہیں؟ قتل و اغواء کے مجرم کو سزا مکمل کر کے الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔

وکیل خرم رضا نے کہا کہ اسلام بھی ایماندار اور دیانتدار ہونے کا درس دیتا ہے اور نیت کی بات کرتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسلام کو اس کیس میں نہ لائیں، توبہ اور راہِ راست پر آنے کا تصور تو اسلام میں بھی ہے، گناہ گار کو معاف بھی کیا جاتا ہے، کئی منکر صراطِ مستقیم پر آ کر بعد میں خلیفہ بنے، شروع میں تو تین چار مسلمان ہی تھے، ایک شخص دیانتداری سے کہتا ہے کہ وہ میٹرک ہے پھر وہ اگلے الیکشن میں بھی نااہل کیسے ہے؟ آپ نے جو تفریق بتائی اس سے متفق نہیں، ایسے تو کوئی غیر ملکی بھی الیکشن لڑ کر منتخب ہو سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل خرم رضا کو ہدایت کی کہ آپ آرٹیکل 62 اور 63 کی پہلی سطر پڑھیں۔

وکیل خرم رضا نے کہا کہ عدالت نے صرف 62 ون ایف کی تشریح کرنی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت 62 ون ایف کی تشریح ہی تو کر رہی ہے۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ ہم 62 اور 63 کو ملا کر تشریح نہیں کر سکتے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ الیکشن کے لیے تاحیات نااہلی کیسے ہو سکتی ہے؟ اضافی اختیار تاحیات نااہلی والا یہ کہاں لکھا ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 63 سے ہٹ کر ٹریبونل کسی کو نااہل قرار دے سکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون نااہلی کی مدت کا تعین کرتا ہے، 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کو برقرار رکھا گیا، کورٹ آف لاء کو ڈیکلیئریشن کا اختیار دیا گیا، جب قانون آ چکا ہے اور نااہلی 5 سال کی ہو چکی تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہے گی۔

وکیل خرم رضا نے کہا کہ ایک بار نااہل شخص ہمیشہ نااہل رہے گا۔

’’آمر نے سیاست دانوں کو نااہل کرنے کا قانون بنوایا‘‘

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل خرم رضا سے کہا کہ آپ آمروں کی حمایت کر رہے ہیں، آمر نے سیاست دانوں کو نااہل کرنے کا قانون بنوایا، کیا کسی آمر پر نااہلی کا قانون لاگو ہوا؟ منافق کافر سے بھی برا ہوتا ہے، منافق سب جانتے ہوئے غلط کام کر رہا ہوتا ہے، میرے والد ایبڈو قانون کے ذریعے ایوب دور میں نااہل ہوئے، آپ آرٹیکل 225 کی بات کیوں نہیں کرتے؟

وکیل خرم رضا نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم میں 62 ون ایف میں شامل شقوں کی توثیق ہوئی۔

’’کیا 5 جینٹلمین کی دانش 326 پارلیمنٹیرینز کی قانون سازی ختم کر سکتی ہے؟‘‘

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہاں تو آئین میں ترمیم بھی گن پوائنٹ پر ہوتی ہے، کیا آپ آرٹیکل 62 ون ایف کو اچھا سمجھتے ہیں؟ اٹھارہویں آئینی ترمیم تو صرف توثیق تھی، منتخب نمائندوں کی بنائی گئی قانون سازی کو حقارت سے نہیں دیکھا جا سکتا، کیا 5 جینٹلمین کی دانش 326 اراکینِ پارلیمان کی دانش مندانہ قانون سازی ختم کر سکتی ہے؟

وکیل خرم رضا نے کہا کہ تاحیات نااہلی ختم کرنے کے لیے آئینی ترمیم کرنا ہو گی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل62 ون ایف کے تحت نااہلی کا تعین آئین کے مطابق نہیں اپنی سوچ کے مطابق کیا گیا، الیکشن 8 فروری کو ہو رہے ہیں تو انتخابات سے متعلق کنفیوژن نہ پھیلائی جائے، مختلف عدالتوں میں مقدمات دائر کرنے سے انتخابات کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی۔

وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے مگر سپریم کورٹ اس کی تشریح کرتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان نے سزا دینی ہوتی تو آرٹیکل63 کی طرح 62 میں بھی شامل کر دیتی۔

وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمان نے نااہلی کو برقرار رکھا ہے لیکن اس کی مدت کا تعین نہیں کیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر فیصلے میں لکھا جاتا کہ نااہلی کی مدت مقرر نہیں اس لیے نااہلی 2 سال ہو گی تو کیا ہوتا؟ فیصلے کی کوئی نہ کوئی منطق ہونی چاہیے۔

وکیل خرم رضا نے کہا کہ دو سال نااہلی کا آئین میں کہیں نہیں لکھا ہوا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایسے تو تاحیات نااہلی کا بھی کہیں نہیں لکھا ہوا۔

وکیل خرم رضا نے کہا کہ عدالت 187 کا اختیار استعمال کرے تو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے غیر آئینی ہونے پر دلائل دوں گا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کی۔

وکیل خرم رضا نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج کی گئی ہے۔

’’کیا پارلیمان کی تشریح عدالت سے کم تر ہے؟‘‘

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نااہلی کی مدت کی تشریح پہلے سپریم کورٹ نے کی پھر پارلیمان نے، کیا پارلیمان کی تشریح عدالت سے کم تر ہے؟

وکیل خرم رضا نے کہا کہ پارلیمان کا کام قانون سازی اور عدالت کا کام تشریح کرنا ہے۔

’’جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ہم کیوں فرض کریں کہ وہ جھوٹا ہے؟‘‘

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ لوگوں نے کہا کہ چلو آدھی جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے، آئین کا تقدس تب ہو گا جب اسے ہم مانیں گے، یا تو ہم کہہ لیتے ہیں کہ بندوق کا تقدس مانیں گے، جب تک کوئی جھوٹا ثابت نہیں ہوتا ہم کیوں فرض کریں کہ وہ جھوٹا ہے؟ وکیل خرم رضا سمیت جو تاحیات نااہلی کی حمایت کر رہے وہ اپنے نکات بتا دیں، 3 وکلاء نے تاحیات نااہلی کی حمایت کی تھی، عثمان کریم صاحب اور اصغر سبزواری صاحب! کیا آپ خرم رضا کے دلائل اپنا رہے ہیں؟

وکیل اصغر سبزواری نے کہا کہ تاحیات نااہلی اگر ڈکٹیٹر نے شامل کی تو اس کے بعد منتخب حکومتیں بھی آئیں، سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی ’جج میڈ لاء‘ ہے، جہانگیر ترین جیسے کیسز کی انکوائری ہونا چاہیے، جہانگیر ترین کیس میں ٹرائل کے بغیر تاحیات نااہل کر دیا گیا۔

وکیل عثمان کریم کے دلائل

وکیل عثمان کریم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کوالیفکیشن ہو یا ڈس کوالیفکیشن، مقصد آرٹیکل 62 اور 63 کا ایک ہی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ یہ صادق اور امین کی تعریف کیا ہے؟

وکیل عثمان کریم نے جواب دیا کہ امین کا مطلب اسلامی تعلیمات سے نہیں لینا چاہیے، امین تو غیر مسلموں کے لیے بھی درج شرط ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ باقی آئین انگریزی میں ہے تو صادق اور امین کے لفظ کیوں اردو میں شامل کیے گئے؟ کیا جنرل ضیاء الحق یا ان کے وزیرِ قانون کو امین کی انگریزی نہیں پتہ تھی؟ کیا ایسی چیزیں صرف کنفیوژن پیدا کرنے کے لیے آئین میں ڈالی گئیں؟

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ صادق اور امین کا تو مطلب وہی ہے ناں جو اسلام میں ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کون ثابت کرسکتا ہے کہ کوئی شخص صادق اور امین ہے؟

وکیل عثمان کریم نے چیف جسٹس کو جواب دیا کہ یہ تو خدا ہی کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سمیع بلوچ فیصلے میں62 ون ایف کی تشریح کرنے والے جج نے فیصل واؤڈا کیس میں تشریح کیسے بدل دی؟

وکیل عثمان کریم نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف صرف کاغذاتِ نامزدگی کی حد تک ہے، سپریم کورٹ نے 2013ء کے اللّٰہ دینو بھائیو کیس میں 62 ون ایف کی نااہلی دی، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے اللّٰہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے پر انحصار کیا، فیصلے پر انحصار کر کے5 رکنی بینچ نے 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی متعارف کرائی، سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے 2020ء میں اللّٰہ دینو بھائیو نظرِ ثانی کیس میں نااہلی کالعدم قرار دی، جسٹس بندیال نے 2020ء کے اللّٰہ دینو بھائیو کیس کے فیصلے پر انحصار کر کے واؤڈا کیس کا فیصلہ دیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یعنی آپ کے مطابق جسٹس بندیال نے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر اپنے ہی مؤقف کی نفی کی؟

وکیل عثمان کریم نے کہا کہ سپریم کورٹ کا 62 ون ایف کا سمیع بلوچ کیس کا فیصلہ اس لیے چلے گا کیونکہ 5 رکنی بینچ کا ہے۔

چیف جسٹس کی وکیل عثمان کریم کی تعریف

اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل عثمان کریم کی تعریف کی کہ آپ اچھی تیاری کر کے آئے ہیں اور بھی معاونت کریں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ آئین میں آرٹیکل 62 اور 63 الگ الگ لانے کی ضرورت کیا تھی؟ ایک آرٹیکل کہتا ہے کون اہل ہے، دوسرا کہتا ہے کون نااہل ہے، دونوں میں فرق کیا ہے؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی دوسری شہریت لیتا ہے تو وہ 62 میں نہیں 63 میں پھنسے گا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ڈیکلیئریشن قانون کے تحت ہوتی ہے جو کاغذاتِ نامزدگی دیکھ کر دی جاتی ہے، کاغذاتِ نامزدگی تو آئین میں نہیں الیکشن ایکٹ میں دیے گئے ہیں، قانون اگر نااہلی کا تعین کر دیتا ہے تو اس پر عمل ہونا چاہیے، 25 سال کی آئین والی ڈکلیئریشن ہوتی تو پھر آئینی ترمیم درکار تھی،جہاں قانون کی بات ہو رہی ہے تو آئینی ترمیم کی ضرورت کیوں پڑے گی؟

وکیل عثمان کریم نے کہا کہ عدالت نے ایک فیصلے میں کہا کہ ہمیشہ اثاثے چھپانا بد نیتی نہیں ہو سکتا، تاحیات نااہلی کا فیصلہ سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے لکھا تھا، جسٹس بندیال نے بعد میں دیے گئے فیصلوں میں مختلف مؤقف اپنایا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ عدالت خود تاحیات نااہلی کے فیصلے سے پیچھے ہٹتی رہی۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 اور 63 میں اہلیت اور نااہلی دونوں لکھی ہیں، دونوں میں فرق کیا ہے؟

وکیل عثمان کریم نے کہا کہ مقصد آرٹیکل 63 اور 62 دونوں کا ایک ہی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون کے مطابق دیے گئے عدالتی ڈیکلیئریشن میں وقت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ڈیکلیئریشن کی مدت کے تعین کے لیے قانون سازی کافی ہے، آئین میں ترمیم لازمی نہیں، صادق اور امین ہونے یا نہ ہونے کا ڈیکلیئریشن کاغذاتِ نامزدگی کی حد تک ہوتا ہے، کاغذاتِ نامزدگی کا ذکر آئین میں نہیں بلکہ الیکشن ایکٹ میں ہے۔

وکیل عثمان کریم نے کہا کہ پاناما کیس میں ڈیکلیئریشن آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت دیا گیا ہے، پاناما میں ڈیکلیئریشن ٹھیک تھا یا نہیں یہ سوال زیرِ بحث نہیں ہے، الیکشن سر پر ہے، ابھی صرف نااہلی کی مدت کا تعین کرنا ہے، نااہلی صرف جمع کرائے گئے کاغذاتِ نامزدگی کی حد تک ہو سکتی ہے، 5 سال بھی نہیں، اگر ضمنی انتخابات ہوں تو نااہل قراردیا گیا امیدوار دوبارہ الیکشن لڑ سکتا ہے،الیکشن ایکٹ میں کی گئی 5 سالہ نااہلی کی مدت خلافِ آئین ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے اچھا نکتہ اٹھایا ہے لیکن الیکشن ایکٹ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔

وکیل عثمان کریم نے کہا کہ ریٹرننگ افسر عدالت نہیں ہوتا، کاغذاتِ نامزدگی میں درستگی کرکے جمع کرائیں تو پچھلی نااہلی ختم ہو جائے گی، میری رائے میں تو نئے کاغذاتِ نامزدگی پر 5 سال کی نااہلی بھی نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن سر پر ہیں،ہم نے یہ مسئلہ حل کرنا ہے، نااہلی کے مسئلے کو ہمیشہ کےلیے طے ہونا چاہیے، آئین و قانون کے مطابق نااہلی سے متعلق فیصلہ ہونا چاہیے۔

وکیل عثمان کریم نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے کو درست کر سکتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف آئینی ترمیم لازمی نہیں، عدالت کے باہر اور اندر تاحیات نااہلی پر آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔

اس کے ساتھ ہی وکیل عثمان کریم کے دلائل مکمل ہو گئے۔

مختصر وقفہ

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیس میں مختصر وقفہ کریں گے اور اس کے بعد وقفہ کر دیا گیا۔

عدالتی معاون عزیر بھنڈاری کے دلائل

سپریم کورٹ میں وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالتی معاون عزیر بھنڈاری روسٹرم پر آ گئے، جنہوں نے دلائل دیے کہ پارلیمنٹ اٹھارہویں ترمیم کرنے بیٹھی تو 62 ون ایف کو نہیں چھیڑا تھا، پارلیمنٹ کو علم بھی تھا کہ 62 ون ایف کی ایک تشریح آ چکی ہے، سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کے کچھ پہلو ضرور دوبارہ جائزے کے متقاضی ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنا پوائنٹ بتائیں۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس نااہلی کے مکینزم کی بات نہیں کر رہا، 18 ویں ترمیم کے بعد بھی کئی آئینی ترامیم ہوئیں، کسی بھی آئینی ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کی بات نہیں ہوئی۔

ایک فارم میں تبدیلی پر پورا پاکستان بند کر دیا گیا تھا: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک فارم میں تبدیلی پر پورا پاکستان بند کر دیا گیا تھا، شاید اس لیے اس معاملے کو چھوڑ دیا گیا ہو، ریاست نے سوچا ہو گا کہ ان لوگوں سے کون ڈیل کرے گا۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ یہ غالب جیسی بات ہے کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا، 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی سزائیں دی گئی ہیں۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ تاحیات نااہلی کی سزا اٹھارہویں ترمیم سے قبل دی گئی یا بعد میں؟

عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 2007ء میں تاحیات نااہلی کی سزا دی گئی، اٹھارہویں ترمیم سے قبل سزائیں دی گئیں۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 63 میں سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن 62 ون ایف میں نہیں۔

عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 62 ون ایف کی سزا کا تعین عدالتوں نے کیا ہے، پارلیمنٹ نے کبھی آرٹیکل 62 اور 63 کی لینگویج تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک مرتبہ حلف کی لینگویج تبدیل ہوئی تو پورا ملک بند کر دیا گیا۔

عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ تاحیات نااہلی کیس میں جسٹس عظمت سعید نے اضافی نوٹ لکھا تھاکہ مدت کا تعین پارلیمنٹ کو کرنا چاہیے، سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں سپریم کورٹ نے مکمل تفصیلی وجوہات نہیں دیں، سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کو چھیڑے بغیر بھی سپریم کورٹ تعین کر سکتی ہے، سپریم کورٹ اصول طے کر سکتی ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کو 63 ایچ کے تناظر میں لیا جائے، سمیع اللّٰہ بلوچ کیس فیصلے کو ختم کیے بغیر راستہ نکالا جا سکتا ہے، پرسوں اس عدالت میں کہا گیا کہ 62 ون ایف 63 سے ملا کر پڑھا جائے، یہ نکتہ سمیع اللّٰہ بلوچ کیس میں تفصیل سے دیکھا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے اصل نکتے پر آ جائیں، ایسا نہ ہو کہ آج لاہور نہ جا سکیں۔

عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں 20 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں، عدالت اگر آرٹیکل 62 میں اہلیت اور 63 میں نااہلی کو الگ کر دے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے، کاغذاتِ نامزدگی آر او کے پاس جاتے ہیں جو نااہلی کا ڈیکلیئریشن نہیں دے سکتا، الیکشن ٹریبونل تسلیم شدہ حقائق کی بنیاد پر نااہلی کا ڈیکلیئریشن دے سکتا ہے، ڈیکلیئریشن کون دے سکتا ہے یہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں نہیں لکھا ہوا۔

’’کوئی عدالت کسی کے سچے اور راست گو ہونے کا ڈیکلیئریشن کیسے دے سکتی ہے؟‘‘

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کوئی عدالت کسی کے سچے اور راست گو ہونے کا ڈیکلیئریشن کیسے دے سکتی ہے؟ ایمانداری، امین اور فضول خرچ نہ ہونے کا تعین عدالتیں کیسے کر سکتی ہیں؟ تاحیات نااہلی کیس میں تو سب کچھ سپریم کورٹ نے ہی کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ سپریم کورٹ ایسا ڈیکلیئریشن دے سکتی ہے؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیس میں ایک گواہ جھوٹ بولتا ہے، کیا اس بنیاد پر تاحیات نااہلی ہو سکتی ہے؟

عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے شفاف ٹرائل کی بات کرتا ہے، ریٹرننگ افسر ڈیکلیئریشن نہیں دے سکتا، ریٹرننگ افسر کورٹ آف لاء نہیں ہے، الیکشن ٹریبونل تسلیم شدہ حقائق کی بنیاد پر ڈیکلیئریشن دے سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ اپنے ہی دلائل کی نفی کر رہے ہیں، ایک جج کہے گا کہ نااہلی ہوتی ہے، دوسرا جج کہے گا نااہلی نہیں ہوتی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اصل سوال یہ ہے کہ ڈکلیئریشن کہاں سے آئے گا؟

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جعل سازی پر ڈکلیئریشن کون دے گا؟ کچھ الفاظ ایسے ہیں جو محض کاغذ کے ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں۔

عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اس بات سے متفق ہوں کہ ایسے ڈکلیئریشن نہیں دیے جا سکتے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی کو راست گو نہ ہونے پر نااہل کروانے کے لیے مقدمہ کیسے بنائیں گے؟

عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ بطور وکیل کیس بنا تو لوں گا لیکن ثابت کرنا شاید ممکن نہ ہو، میں عدالتی معاون ہوں، کراس سوال نہ کریں۔

عزیر بھنڈاری کے جملے پر ججز مسکرا دیے

عدالتی معاون عزیر بھنڈاری کے جملے پر ججز مسکرا دیے۔

عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اگر آپ کہیں تو میں اپنے سوالات واپس لے لیتا ہوں، تسلیم شدہ حقائق پر سپریم کورٹ بھی ڈیکلیئریشن دے سکتی ہے، سول کورٹ بھی ڈکلیئریشن دے سکتی ہے۔

ہم نے ریٹرننگ افسر کیلئے کام آسان بنانا ہے: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم نے چیزوں کو آسان بنانا ہے مشکل نہیں، ہم نے آر او کے لیے آسانی لانی ہے مشکل نہیں لانی، ہمیں صرف بتائیں سزا تاحیات ہو گی یا 5 سال؟ آپ نے تو ریٹرننگ افسر کو کورٹ آف لاء بنا دیا، ہم نے ریٹرننگ افسر کے لیے کام آسان بنانا ہے،کب کاغذات منظور کرنے ہیں کب نہیں یہ واضح کرنا ہے، آپ معاملے کو مزید کنفیوژ کر رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ نااہلی کے فیصلے میں آرٹیکل 62 ون ایف کا حوالہ نہیں تو اثرات کیا ہوں گے؟ الیکشن میں کامیابی کے بعد 62 ون ایف کیسے لگ سکتی ہے؟

عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اس بنیاد پر اطلاق ہو سکتا ہے کہ انتخابات کے وقت اہل نہیں تھا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس مقدمے کو طول نہیں دے سکتے، انتخابات کا شیڈول مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ بھی لکھنا ہے۔

عدالتی معاون عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہائی کورٹ کو اختیار ہے کہ منتخب نمائندے کے خلاف ڈیکلیئریشن جاری کرے، بے ایمانی کا فیصلہ تو عدالت کسی بھی کیس میں دے سکتی ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کے لیے سول کورٹ سے ڈیکلیئریشن لینا لازمی ہے، ہر عدالتی فیصلہ منتخب نمائندے کے خلاف ڈکلیئریشن نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عزیر صاحب آپ سے آئینی معاونت کی امید تھی جو آپ نے نہیں کی۔ کسی نے آرٹیکل 17 کا ذکر نہیں کیا، کسی نے یہ نہیں بتایا کہ محض جھوٹ بولنے پر تاحیات نااہلی کیوں؟ تاحیات نااہلی دینے کی کوئی تو منطق ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ یہ تو نہیں کہ آپ موڈ میں نہیں، تو فیصل واوڈا نے توبہ کرلی انہیں چھوڑدیں اور اگر موڈ میں ہیں تو تاحیات نااہل کردیں۔ پارلیمنٹ پر جان بوجھ کر اٹھارویں آئینی ترمیم میں یہ ترامیم تھوپی گئیں۔ جبراً جو چیزیں ہوتی ہیں وہ نہیں چل سکتیں۔ ڈکٹیٹر نے کہا کہ یہ ترمیم کرو ورنہ میں 25 سال بیٹھا رہوں گا۔ ایک شخص کی مرضی پر پورا ملک چلے یہ جبرہے۔ حکومت نے پھر کہا کہ آپ جاؤ ہم ترمیم کرلیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو شخص توبہ کرلے اس کا کیا ہوگا؟ جنہوں نے پورا ملک یرغمال بنایا وہ بغیر سزا اور توبہ دوبارہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ وکلا کو ڈکٹیٹر کا نام لیتے ہوئے اتنی دشواری کیوں پیش آرہی ہے؟ جس پر عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ جو بندوق لے کر بیٹھے اس سے تو نہیں لڑسکتے، جن کو ووٹ دیا ان سے لڑیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی قانون ہے یا نہیں؟ بس مکھی پرمکھی ماری جاؤ جس پر عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ میں نے جتنی ڈکٹیٹر پر تنقید کی اتنی 18ویں ترمیم پر کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ بےچاروں پر تو تنقید آسان ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوگوں اور پارلیمنٹ نے سوچ سمجھ کر قانون سازی نہیں کی۔ لوگوں اور پارلیمنٹ پر تھوپی گٸی ہیں یہ چیزیں۔ 62 ون ایف کی ٹیوننگ کی گٸی، ایک شخص کی مرضی پورے پاکستان پر حاوی ہوگٸی، پاکستان کو یرغمال بنانے والوں نے معافی مانگی کسی سے؟ یہ چیزیں مارشل لاء اور ڈکٹیٹرز کے ادوار میں آٸیں۔

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کبھی بھی واوڈا کیس کی روشنی میں کسی کو بھی صادق و امین قرار دے سکتی ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا اس جج کےلیے بھی کوئی معیار ہے جو کسی کو صادق و امین کا ڈکلیئریشن دیتا ہے؟ کیا خود جج اس معیار پر پورا اترتا ہے جو کسی اور کو امین قرار دے؟

عدالتی معاون عزیر بھنڈاری کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عصر کا وقت ہے تو یہ نہ ہو اسلامی احکامات کی خلاف ورزی پر ہمارے خلاف ڈکلیئریشن آجائے۔ مختصر وقفے کے بعد واپس آئیں گے۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو عدالتی معاون فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے دلائل شروع کیے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سمیت دیگر وکلا سے درخواست ہے کہ دلائل مختصر رکھیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے مختصر دلائل سنیں گے جس پر عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ 50 فیصد دلائل کم کردیے، مختصر دلائل دوں گا۔

انہوں نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ ختم کرے، تاحیات نااہلی کے فیصلے کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ریمارکس دیے کہ جب پارلیمنٹ نے ایکٹ بنادیا ہے تو سپریم کورٹ پھر نااہلی کا فیصلہ ختم کیوں کرے؟ جس پر عدالتی معاون نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کی موجودگی میں قانون سازی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ نااہلی کی مدت کا تعین کر رہا ہے۔ عدالت نے دیکھنا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کرنے کی نیت سے کی گئی یا نہیں، اگر الیکشن ایکٹ کی ترمیم برقرار رکھنی ہے تو سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم ہونا ہوگا۔ نااہلی کی مدت، طریقہ کار اور پروسیجر کا تعین ہونا ضروری تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ نے پہلے ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم کردیا تو عدالت کیوں اپنے فیصلے کو ختم کرے؟ جس پر وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ کی آئینی تشریح ختم نہیں کرسکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ چلے گا یا الیکشن ایکٹ کا۔

عدالتی معاون نے کہا کہ پارلیمنٹ نے نااہلی مدت 5 سال کرتے وقت الیکشن ایکٹ ترمیم کا اطلاق اٹھارویں ترمیم سے کیا۔ سمیع اللہ بلوچ کیس میں ایسا فیصلہ دیا جس پر آئینی خلا تھا، سمیع اللہ بلوچ فیصلہ اس لیے آیا کہ آئینی خلا پر ہوسکے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئین میں خلا کی صورت میں یہ کیوں سمجھا جاتا ہے کہ اس کو پر کرنے کےلیے عدالتی تشریح ہی ہوگی؟ آئین جن چیزوں پر خاموش ہے اس کا مقصد قانون سازی کا راستہ کھلا رکھنا بھی ہوسکتا ہے نہ کہ عدالتی تشریح۔ آئین میں تو قتل کی سزا بھی درج نہیں اس لیے تعزیرات پاکستان لایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن ایکٹ اور عدالتی فیصلے کی موجودگی میں تیسرا راستہ نکالا جائے، وہ نظریہ بتائیں جو اس صورتحال سے باہر نکالے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ سپریم کورٹ یہ معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑ دے؟ پارلیمنٹ خود دیکھے جو ترمیم کرنی ہے کر لے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کے فیصلے کو چھوڑ دیں، جب پارلیمنٹ نے نااہلی کا نیا قانون بنا دیا تو اس پرعمل کرلیں، کسی چیز کو بغیر چھیڑے پارلیمنٹ کے قانون پرعمل کیوں نہیں ہوسکتا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم کو ریگولیٹ نہیں کیا جاسکتا؟ جس پر فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس کا فیصلہ ختم نہ ہونے پر آئینی تشریح کے معاملے میں مسائل ہوں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون ساز خلا اس لیے چھوڑتے ہیں کہ بعد میں اس پر قانون بن سکے۔ اس بنیاد پر الیکشن ایکٹ کا سیکشن 232 ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کیا آئین قتل کی سزا کا تعین بھی کرتا ہے؟ اگر قانون سازوں نے کوئی خلا چھوڑا ہے اسے کیسے پُر کیا جائے گا؟ جس پر عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ اگر قانون ساز خلا پر نہیں کرتے تو عدالت بھی کرسکتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر عدالت بھی تشریح کردے اور قانون سازی بھی ہوجائے تو کونسا عمل بالا ہوگا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ڈیکلیئریشن کی مدت 5 سال تک رکھنا الگ بات ہے، قانونی ترمیم سے شاید وہ اس سے تھوڑا آگے چلے گئے، نااہلی کی مدت کو 5 سال تک کرنا ایک آئینی چیز کو کنٹرول کرنے جیسا ہے، ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اس پر عدالتی معاون نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سارے معاملے کا حل اسلام میں موجود ہے جس کی طرف ہم لوگ جاتے نہیں۔ قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ انسان کا رتبہ بہت بلند ہے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ سورۃ سجدہ واضح ہے کہ انسان برا نہیں، اس کے اعمال برے ہوتے ہیں۔ کسی کو تاحیات نااہل کرنا اسلام کے خلاف ہے۔ 62 ون ایف انسان کو برا کہہ رہا ہے۔ تاحیات نااہلی توبہ کا راستہ بند کردیتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کوئی شخص گناہ سے توبہ کر لے تو معافی مل سکتی ہے، کوئی آج زانی یا شرابی ہے تو وہ کل کو توبہ کرسکتا ہے۔ توبہ کا راستہ خدا نے بند نہیں کیا تو عدالت کیسے کرسکتی ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اس کا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ کسی نے توبہ کرلی؟ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد نہیں ہوتے تو مطلب وہ صادق اور امین ہے؟

جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ الیکشن جمہوریت کےلیے اہم ہیں، سیاسی جماعتیں جمہوریت کی بنیاد ہیں جس پرعدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ سیاسی قیادت کو مٹا دینے والی تشریح سے عدالتوں کو گریز کرنا چاہیے۔ تاحیات نااہلی، عدالتی قتل اور سزاؤں سے جماعتوں کی قیادت کو مٹایا جاتا رہا۔

عدالتی معاون فیصل صدیقی کا آئین کےآرٹیکل میں نظریہ پاکستان کا تذکرہ

عدالتی معاون فیصل صدیقی نے آئین کے آرٹیکل میں نظریہ پاکستان کا تذکرہ کیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نظریہ پاکستان سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ کہیں لکھا ہے؟ جس کا جواب فیصل صدیقی نے ناں میں دیا۔ 

فیصل صدیقی نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے خالق رضا ربانی سے پوچھا آرٹیکل 62 (1) ایف میں نااہلی مدت کا تعین کیوں نہیں کیا گیا؟  تو رضا ربانی نے جواب دیا کہ اس وقت ایک سو سے زائد ترامیم پر کام ہو رہا تھا۔ رضا ربانی کے مطابق مذہبی جماعتوں کے ساتھ بھی مشاورت کی تھی۔ رضا ربانی کے مطابق یہ حساس مسئلہ تھا اس وجہ سے جان بوجھ کر خلا چھوڑا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ بار کا کیا مؤقف ہے؟ جس پر وکیل علی عمران کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اپنی درخواست واپس لے رہی ہے۔ سپریم کورٹ بار الیکشن ایکٹ اور 5 سال نااہلی کی حمایت کرتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست 184 تھری کی تھی اور ہم سماعت آرٹیکل 185 کے تحت اپیلوں پر کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کل تک کےلیے ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کل صبح 9 بجے سماعت ہوگی۔ 

واضح رہے کہ کیس کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ نے فریقین کو نوٹسز جاری کر رکھے ہیں۔

قومی خبریں سے مزید