• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صرف سرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکری کیوں ملے؟ کیا باقی بچے پاکستانی نہیں؟ سپریم کورٹ نے سوالات اٹھا دیے

سپریم کورٹ آف پاکستان—فائل فوٹو
سپریم کورٹ آف پاکستان—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جنرل پوسٹ آفس اسلام آباد میں بھرتی سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کے بچوں کو ترجیحی بنیاد پر بھرتی کرنے پر سوالات اٹھا دیے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔

’’صرف سرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکری کیوں ملے؟‘‘

دورانِ سماعت کیا چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا کہ وزیرِ اعظم کے پاس یہ اختیار ہے کہ خود سے پالیسی تبدیل کریں؟ ایسی خیراتی پالیسیاں کیوں بنائی جاتی ہیں؟ اس طرح کی پالیسی بنا کر آئین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں، ہمت پکڑیں اور وزیرِ اعظم کو لکھیں کہ یہ پالیسی غلط ہے، ترجیحی بنیادوں پر صرف سرکاری ملازمین کے بچوں کو نوکری کیوں ملے؟ کیا باقی بچے پاکستانی نہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ پالیسی سابقہ حکومت کے دور میں بنی۔

’’ایسی پالیسی کو اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے‘‘

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کہا کہ پھر کہہ دیں کہ سابقہ حکومت آئین سے بالا تر تھی، ایسی پالیسی کو اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے، آئین ہر چیز سے بالاتر ہے۔

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس معاملے پر حکومت سے ہدایات لینے کی استدعا کی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہیں۔

قومی خبریں سے مزید